• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلاحی ریاست وہ ہے جس میں مملکت کا کوئی غریب، نادار اور ضرورت مند بھوکا نہ سوئے اور اسے سرکاری خرچ پر علاج معالجے اور تعلیم سمیت زندگی کی تمام لازمی بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ وزیراعظم عمران خان ریاستِ مدینہ کی طرز پر پاکستان کو جس طرح کی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں اس کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے۔ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھوں پر راتیں گزارنے والوں کیلئے جب انہوں نے پناہ گاہوں کا تصور پیش کیا جن میں ضرورت مندوں کو کھانا بھی ملے اور وہ دن بھر کی مشقت کے بعد آرام سے سو بھی سکیں تو اس کے پیچھے بھی ان کا یہی نظریہ کارفرما تھا۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہوں نے اسلام آباد میں احساس سیلانی لنگر خانے کا بھی افتتاح کر دیا ہے جس میں روزانہ 6سو غرباء و مساکین کو کھانا ملا کرے گا۔ اس اسکیم کا دائرہ بعد میں پورے ملک میں ایسے مقامات تک پھیلا دیا جائے گا جہاں محنت کش بے روزگاری اور بھوک کا شکار ہیں۔ پہلے مرحلے میں مختلف علاقوں میں ایسے 112لنگرخانے کھولے جا رہے ہیں۔ دونوں پروگرام حکومت کی اعانت، نگرانی اور سرپرستی میں پبلک پرائیوٹ شراکت داری کا حصہ ہیں۔ لنگرخانہ سکیم سیلانی انٹرنیشنل اور حکومت کے احساس پروگرام نے مشترکہ طور پر اس عزم کے ساتھ شروع کی ہے کہ نادار طبقات کو کھانا فراہم کرنے کیلئے لنگرخانوں کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اسکیم کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب تک روزگار کے حالات بہتر نہیں ہوتے کوشش کر یں گے کہ کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہو گی احساس پروگرام ملک میں غربت ختم کرنے کا سب سے بڑا پروگرام ہے اس کے تحت نوجوانوں اور خواتین کو روزگار اور قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے تاکہ وہ معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم امیروں سے ٹیکس وصول کر کے غریبوں پر خرچ کریں گے۔ کمزور طبقے کی مدد کریں گے تو ریاست میں برکت آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے غریبوں کیلئے پناہ گاہیں تعمیر کیں اور اسپتالوں اور پولیس کے نظام میں بھی بہتری لا رہے ہیں۔ بے سہارا، نادار اور بیروزگار لوگوں کیلئے پناہ گاہوں اور لنگرخانوں کا اہتمام بلاشبہ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ایسے ملک میں جہاں آبادی کا دو تہائی حصہ غربت کا شکار ہو اور اس میں سے بھی اکثریت خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہو اس طرح کے اقدامات فلاحی ریاست کی سمت میں نہایت مثبت پیش رفت ہیں اور یہ ضرور جاری رہنے چاہئیں لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں جو صنعتوں کے قیام اور کاروبار کی ترقی کے بغیر ناممکن ہیں۔ پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کی اسکیموں کا مقصد حاجت مندوں کی عارضی مدد ہونا چاہئے مستقل معاشی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دی جائے اور اس مقصد کیلئے انہیں ایسے ہنر سکھائے جائیں جن سے وہ اپنی روزی خود کما سکیں البتہ جو لوگ بالکل معذور ہوں انہیں ان سکیموں سے مستقل فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کھانا اور پناہ انہی لوگوں کو دی جائے جو حقیقی معنوں میں ضرورت مند ہوں اس کیلئے ہمہ گیر سروے کرا کے باقاعدہ فہرستیں تیار کرائی جائیں۔ اس وقت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ساڑھے آٹھ لاکھ خواتین کی مدد کی جا رہی ہے اور یہ تعداد صرف 15فیصد حاجت مندوں کی ہے آیا باقی کا اندراج ہی نہیں کیا جا سکا۔ پناہ گاہوں اور لنگرخانوں سے مدد حاصل کرنے والوں کی فہرستیں پوری چھان بین کے بعد بنائی جائیں تاکہ مستحق لوگوں کا حصہ انہی کو ملے اور کوئی غیر مستحق ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین