• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے کچھ دوستوں کے نزدیک سیاست وہ حسیں مہ جبیں حقیقت ہے جس کی کشش اور سنگت کے سبب اِن کا وقار ہے۔ وہ اس وجۂ وقار پر تن من دھن کی بازی لگا دیں گے مگر یہ الگ بات ہے کہ اس حقیقت کی خود مختاری و خود انحصاری و آزادی کا نہیں سوچیں گے! گویا لیڈر ہو کہ کارکن ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔ ذوقؔ نے تو یہ بات دخترِ رز کو منہ لگانے کے حوالے سے کی تھی مگر یہ ظالم تو سیاست پر پوری اترتی ہے۔ سیاست بچانے سے سیاست لڑانے تک اور سیاست کھیلنے سے سیاست لپیٹنے تک کون ہے جو آپے سے باہر نہیں ہے؟

ہمارے پیارے سیاست دان یہ خوب جانتے ہیں کہ عوام سیاسی لحاظ سے بڑے کمزور حافظے کے مالک ہیں لہٰذا ان کا یہ مائنڈ سیٹ بنا دیا جائے کہ یہ اگر ہمارے حق میں ہیں تو دوسری پارٹی کے خلاف ہونا بھی ضروری ہے، تبھی جاکر ہم مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کر سکیں گے۔ ذرا اس پر ہی غور فرما لیجئے 2014کے تحریک انصاف دھرنے کے فضائل اور برکات بیان کرنے والے آج مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے نقصانات بتاتے نہیں تھکتے۔ پھر ہمارے سبھی قائدین میں ایک بات بہرحال مشترک ہے کہ وہ سیاسی زاویوں کو دیکھنا اور پرکھنا سکھائیں، نہ سکھائیں لیکن مخالفین کی تضحیک ضرور سکھا دیتے ہیں۔ پس کارکنان کا خون گرمانے کیلئے کسی منشور یا انقلابی راستے کی ضرورت نہیں، فقط نفرت اور تضحیک کی ڈویلپمنٹ ہی کافی ہے، اگلے کام کیلئے بھی پھر کوئی بڑی حکمت عملی درکار نہیں، جلتی پر تیل اور حالات و واقعات کی پیچیدگی ہی کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد خود کو بھی سنبھالنا چاہئے۔ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ملکی وقار ہونا چاہئے، لب پر کرپشن کی داخلی لوک داستانیں نہیں۔ انصاف کا تقاضا ہو تو داخلی سطح پر کٹہرے میں کھڑوں کو ضرور انجام تک پہنچائیں۔ عنانِ اقتدار تھام کر دوسروں کی تضحیک سے اجتناب نہ کریں اور اپوزیشن سے انصاف شفاف نہ ہو مگر اپنوں کو ڈھیل دیں تو دھرنے کیوں نہ ہوں؟ یہ میاں نواز شریف کا حالیہ بیان بھی قابل غور حکومتی رویے نے بنا دیا کہ ’’ہمیں مولانا فضل الرحمٰن کی استعفوں والی بات مان لینا چاہئے تھی‘‘۔ وہ الگ حقیقت ہے کہ میاں صاحب فیصلوں میں دیر کر دیتے ہیں اور کبھی جلدی۔

تلخ حقیقت یہ بھی کہ 1988سے آج کے آزادی مارچ تک لوگ ’’جمہوریت‘‘ سبوتاژ کرنے کیلئے جمہوریت کے نام ہی پر نکلے اور انجینئرنگ جمہوریت کو فروغ دینے کیلئے کچھ کارکنان نے سر دھڑ کی بازی سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان مارچوں اور دھرنوں کی پس منظر میں پائی جانے والی خصوصی پریم کہانیوں کو کون طبع نازک پر سوار کرتا ہے؟ بھٹو کے دور تک دیسی نام اور دیسی احتجاج تھے، جب شیریں بیانی اور روحانی خواہشات کو تقویت بخشنا چاہی تو تحریک کے نام سے پکار لیا۔ نظام مصطفیٰ تحریک سے ہماری عمر کے لوگوں کی آبیاری ہوئی، پھر امریکہ مردہ باد ریلیوں نے شعور کو جلا بخشی۔ کبھی ایم آر ڈی تحریک تو کبھی اے آر ڈی تحریکیں بھی بھلی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریکیں تو سدا بہار ’’سیاسی‘‘ و نظریاتی پلیٹ فارم رہیں جس میں ساری قوم کا ایک نکتہ پر ہونا ضروری رہا۔ بینظیر کی پہلی حکومت خاتمے کے بعد جتوئی صاحب اور میاں صاحب کو برسر اقتدار لانا مقصود تھا، سو ہوا۔ پھر بینظیر کا لانگ مارچ میاں صاحب کو بھی لے دے گیا، یہ وہ لانگ مارچ تھا جو شروع ہونے سے قبل ہی ’’کامیابی‘‘ کے سہرے سے ہمکنار ہوا، بینظیر بھٹو کی اس طرح کی یہ پہلی اور آخری کامیابی تھی! بینظیر کی دوسری حکومت کو قاضی حسین احمد کا ملین مارچ لے اڑا۔ مارچ دراصل بہانا اور صدر فاروق لغاری و قاضی صاحب اور دوستوں کی ملنساری کا شاخسانہ تھا۔ اس کے بعد جب نواز شریف کی دوسری حکومت گرانے کیلئے کسی مارچ کا تکلف بھی درکنار رہا تو میثاق جمہوریت کا جنم ناگزیر ٹھہرا۔ یہ سب مشرف، قاف لیگ تناظر میں تبدیلیاں تھیں۔ یہ وہ پاک جمہوریت کی ایک مثبت تبدیلی اور بینظیرانہ وژن تھا کہ زرداری مخالف وکلاء اور جماعت اسلامی کا مارچ ہائی جیک کر لینے کے باوجود میاں صاحب کو گوجرانوالہ سے واپس لاہور لوٹنا پڑا اور عمران خان کا دھرنا سوا سو دن جلوہ افروز رہنے کے باوجود تیسری نواز حکومت کو چلتا نہ کر سکا!

کوئی کسی کو ’’جمہوری حسن‘‘ کے دھرنوں اور مارچوں کی داستانِ حسرت سنا کے روئے یا نہ روئے، لیکن مذہب کارڈ اور جمہوریت کے عناصر کب استعمال نہیں ہوئے؟ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ کس کو مدارس مدد مطلوب نہ رہی؟ لیکن یہ بھی طے ہے کہ حکومتوں کی آنکھیں کھولنے میں یہ احتجاج معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اقتدار کے نشے میں چور وزراء کی نیندیں حرام اور آٹے دلیے کا بھاؤ بھی معلوم ہوتا ہے۔ ہر دور میں عہدِ حاضر کی طرح حکومتیں بیک ڈور ترلے منتوں پر بھی اترتی ہے۔ مدنظر رہے کہ حکومتی کارکردگی کی خرابی کے سبب اپوزیشن پارٹیوں کی آوازیں ہم آہنگ نہ بھی ہوں مگر وہ مل کر نغمگی اور موسیقیت کا روپ ضرور دھار لیتی ہیں۔ ساری اپوزیشن یک رنگ نہ بھی ہو مگر مہنگائی و ناانصافی اور حکومتی بے اعتنائی و بدعنوانی کے خلاف سب یک زبان ہو جائیں تو ’’حلقہ یاراں‘‘ کا سوچ میں پڑنا کوئی بعید نہیں رہتا۔ قبل از دھرنا، ’’دھرنا اوقات‘‘ اور بعد از دھرنا کے سب لمحے اپنا رنگ چھوڑتے اور اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ سیانے کہتے ہیں نا، تم کہو نہ کہو شبِ وعدہ کیسے گزری، اس کا پتا صبح کی آہیں بتا دیتی ہیں!

سب حسرتیں، کاوشیں اور داستانیں درست مگر اس ڈیجیٹل اور گلوبل ویلیج زندگی میں ہماری اور ہمارے قائدین کی سوچ اور سیاسی طریقۂ واردات پیچھے ہی کھڑے ہیں۔ ہمارا سچ اور ضرورت ہنوز ڈیجیٹل نہیں ہوئے۔ کوئی تاج اچھالنے کے درپے ہیں اور حاکمین جھوٹی امیدوں کا بھاری بھرکم بوجھ لاد کر عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں؟ عوام کدھر جائیں، دھرنوں کے دھوکے میں یا امید کے گرداب میں؟ کوئی بتا دے کہ داستانِ حسرت، آزادی سیاست، آزادیٔ جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کس دہلیز پر ملیں گے؟

تازہ ترین