• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں اس وقت جتنے بھی علاقائی تنازعات عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں وہ کسی نہ کسی طور مسلمانوں ہی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسلمان کئی عشروں سے بھارت اور اسرائیل کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں، ان کی داد رسی کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن عالمی برادری ان پر عملدرآمد کرانے کے معاملے میں بے حسی کا شکار ہے۔ ایسا ہی ایک تنازع یمن کا بھی ہے جو کئی سال سے چل رہا ہے مگر ختم ہونے کے بجائے روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ایک مغربی ادارے کی تحقیق کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں اب تک 90ہزار یمنی مارے جا چکے ہیں، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس کے خاتمے کے لئے پچھلے سال اسٹاک ہوم معاہدہ ہوا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ یمن کی حکومت کے خلاف بغاوت برپا ہے اور جنوبی یمن میں حوثی قبائل کی باغی کونسل کا غلبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری فوج کو سعودی عرب اور باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یمن کی خانہ جنگی نے اپنی سرحدوں سے نکل کر بحیرہ احمر اور سعودی عرب کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ باغیوں نے میزائلوں سے حملہ کر کے سعودی آئل تنصیبات کو نقصان پہنچایا جبکہ بحیرہ احمر میں ایران کے تیل بردار ٹینکر کو مبینہ طور پر مخالف فریق نے آگ لگا دی، اس سے دو بڑے اسلامی ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ادھر امریکہ ایران کو نشانے پر لئے ہوئے ہے اور اس کے خلاف آئے روز اقتصادی پابندیاں سخت کر رہا ہے۔ اس صورت حال سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں عالم اسلام میں سے صرف پاکستان کو یہ توفیق ہوئی کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی مخاصمت ختم کرا کے مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا ملّی کردار ادا کرے۔ وزیراعظم عمران خان اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ ابتدائی رابطوں کے بعد اتوار کو ایران کے ایک روزہ دورے پر گئے۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقاتیں کیں اور ایران سعودی عرب تنازعات طے کرنے کے لئے انہیں اسلام آباد میں اجلاس منعقد کرنے کی پیشکش کی۔ صدر روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ملکوں میں دوستی اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں کا آغاز پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے، کسی اور کے کہنے پر ایسا نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اس معاملے میں ثالث نہیں، سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایرانی صدر سے ان کی ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے مصالحتی عمل آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ صدر روحانی نے یہ بھی کہا ہے کہ خیر سگالی جذبے کے جواب میں خیر سگالی ہی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اب منگل کو سعودی عرب جائیں گے جہاں سعودی قیادت سے بھی زیر غور معاملے پر بات چیت کریں گے۔ یہ اشارہ پہلے ہی مل چکا ہے کہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان بھی ایران سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ توقع ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا مثبت جواب دے گی اور مذاکرات کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالے گی۔ وزیراعظم نے ایرانی صدر سے باہمی تعاون کے معاملات پر بھی بات کی اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ایران کی جانب سے کشمیری عوام کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ عمران خان کو صدر ٹرمپ نے بھی ایران امریکہ تعلقات معمول پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کر رکھی ہے جس کا ایران نے خیرمقدم کیا ہے۔ ایران سعودی عرب اور ایران امریکہ تعلقات کی بحالی بہت بڑے چیلنجز ہیں، توقع ہے کہ عمران خان اس امتحان میں سرخرو ہوں گے۔

تازہ ترین