• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :روبینہ خان ۔۔۔ مانچسٹر
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ "کام کرتا ہی بندہ اچھا لگتا ہے" کام یا جاب آپ کے لئے اطمنان بخش ہوتی ہے، کام سے آپ گھر چلاتے ہیں اور آپ کی قابلیت اور تعلیم سے معاشرے کو بھی فائدہ ہوتا ہے، لیکن جہاں کام آپ کو خوشی، سکون اور معاشی بے فکری کی بجائے ڈپریشن اور اینگزائٹی دینے لگ جائے تو یہ وہ وقت ہے جب آپ کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں کیونکہ ڈپریشن جان لیوا چیز ہے، آپ کو کام کی جگہ اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگہی ہونی چاہئے، ملازمین، برے رویے اور بدتمیزی کو برداشت کئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ کام سے نکالے جانے کے خوف سے ہر طرح کا پریشر برداشت کرتے ہیں اور اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، بہت سے ادارے ایسے ہیں جو اپنے سٹاف کی ہیلتھ اور well being کو ایشو ہی نہیں سمجھتے، بدقسمتی سےماڈرن ورک پلیس پر جسمانی سے زیادہ نفسیاتی دباؤ ہوتا ہےOffice of National Statistic کے ڈیٹا کےمطابق2017-2018 میں لوگ کام سے جڑے دباؤ کی وجہ سے اینزائٹی اور ڈپریشن کا شکار رہے ہیں جبکہ پچھلے سالوں میں یہ تعداد کافی کم تھی، Long hours کام کرنے سے بھی صحت خراب ہوتی ہے.21 سالہ ایک نوجوان بہتر گھنٹے کام کرنے کے بعد گرا اور مر گیاگیا جبکہ ایک لاری ڈرائیور لمبےگھنٹے کام کرنے کے بعد گھر کے قریب ہی پہنچا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور مر گیا، ایسی بے شمار خبریں ہیں جن سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتاکہ روٹی روزی کمانا زندگی جینے کے لیے ہے، نہ کہ مرنے کے لئے۔ ایک دور غلامی کا دور تھا، جس میں امیر لوگ غریبوں کو خرید لیتے تھے اور غلام کی زندگی جائیداد کی طرح خریدنے والے کے نام ہو جاتی تھی، جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے غلام کو صرف کھانے پینے کے لئے کچھ دے دیا جاتا تھا۔ غلام کا حق کچھ بھی نہ تھا، آج کل کے دور میں بھی گاؤں ،دیہات سے ایسی خبریں سننے کو مل جاتی ہیں جہاں پر غریب مزاروں کے پاؤں میں بیڑیاں باندھ کر کام کروایا جاتا ہے.اٹھارہ سو پینسٹھ میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے امریکہ سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا. پریذیڈنٹ ابراہم لنکن نے joint resolution کی پیش کردہ تیرویں ترمیم کو سٹیٹ Legislation کا حصہ بنادیا، آج کے دور میں جسمانی طور پر سخت محنت کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ ٹیکنالوجی نے زندگی آسان بنا دی ہے لیکن آج کی دنیا کا بڑا المیہ انسانی نفسیات، آنا اور مسائل کو نظرانداز کرنا ہے، اگر ہم مان لیتے ہیں کہ انسان کی قدر کی جانی چاہئے تو وہ تمام لوگ جو کسی بھی حیثیت سے کسی جگہ کام کرنے جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے حقوق ہیں، ان کو اس کے بارے میں پتہ ہونا چاہئے، تمام خوبیاں کام کرنے والے میں نہیں بلکہ اداروں کے ہیڈز اور CEO کو بھی civilised ہونا چاہیے، امریکہ میں ان مسائل پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں مثال کے طور پر، Dying for a paycheck .یا پھر ایسے موضوعات جس میں لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ لوگوں یا کام کرنے والوں کو اولین حیثیت دینے کے بعد کمپنی بے شمار پروفٹ بنا سکتی ہے۔ المختصر کام کی جگہ کا ماحول کام پر اثر انداز ہوتا ہے، بیس ہزار لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے لیڈر سے کیا چاہتے ہیں تو جواب آیا "عزت "کسی کو عزت دینے کے لئے کوئی بہت بڑے کام نہیں کرنے پڑتے جو کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے لوگوں کو شکریہ کہنا، کام کو سراہنا، ان کی بات توجہ سے سننا، سوال کرتے ہوئے سخت لہجہ نہ بنانا، ایک بڑی کمپنی کے سربراہ کے لئے کامیابی کا گر یہ ہے کہ اگر وہ دس فٹ کے فاصلے سے اپنے اسٹاف کو دیکھتا ہے تو اس آنکھ ملا کر بات کرنی چاہئے. اگر پانچ فٹ کے فاصلے سے دیکھتا ہے تو اس کو ہیلو کہنا چاہیے اور ان کو، ان کی ویلیو کا احساس دلانا چاہئے، چھوٹے چھوٹے پوائنٹس پر عمل کرکے کوئی بھی کمپنی آسمان کو چھو سکتی ہے، بدتمیزی اور اکھڑپن لوگوں سے کام کی صلاحیت چھین لیتا ہے، اور نقصان کمپنی ہی کو ہوتا ہے.اس کے علاوہ ساتھی ورکرز کی bullying برداشت نہیں کرنا چاہئے، اگر آپ کو ایسی بوڈی لینگویج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی آپ وضاحت نہیں کر سکتے لیکن وہ آپ کو پریشان کر رہی ہے تو آپ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور اس کو رپورٹ ضرور کرنا چاہئے۔ The world economic forumکے مطابق لوگوں میں پائی جانے والی دائمی بیماریوں کی تین چوتھائی وجہ اسٹریس اور غیر صحت مندرویے ہوتے ہیں، مثلا سگریٹ پینا، ڈرنکنگ یا ضرورت سے زیادہ کھانا، اعدادوشمار کے مطابق ورک پلیس میں دباؤ کی وجہ صحت کے مسائل کی جڑ ہے۔ اداروں کے سربراہ بہت کم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ جو لوگ ان کے پاس کام کر رہے ہیں ان کی جسمانی اور ذہنی صحت ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ،اسٹاف کو ہر وقت ای میل یا ٹیکسٹ بھیجتے رہنے سے ہر وقت جواب طلبی کا احساس رہتا ہے، لوگوں کو بھی ایمپلائرز کا انتخاب کرتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ جاب تنخواہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ سوچنا چاہیے کہ کیا ‏job آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے ٹھیک ہے،دوسری صورت میں ذہنی بیماریوں کے علاوہ جسمانی بیماریاں بھی لگ جائیں گی مثلاً سر میں درد، متلی ہونا، گردن اور کندھوں میں درد رہنا، بھوک کا اڑ جانا یا بہت زیادہ بھوک لگنایا پھر رونے کا جی چاہنا، یہ سب علامتیں آپ کی صحت اور زندگی کے لئے اچھی نہیں ہیں تو اپنے حقوق کا تحفظ کیجئے زندگی سکون اور خوشی سے بسر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں. آپ کی زندگی کا کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین