• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تخفیف ِ غربت و سماجی تحفظ سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں آمدنی کے لحاظ سے غربت کی موجودہ شرح 24جبکہ کثیر الجہتی اشاریوں کی بنیاد پر 38فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جو مہنگائی کی وجہ سے مزید کئی گنا بڑھی ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے جس پر غور و فکر کرنے اور اس کا پائیدار حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں بعض پروگرام زیر عمل ہیں جن میں بے نظیر انکم سپورٹ، صحت انصاف کارڈ، دارالاحساس، پناہ گاہیں، اولڈ ایج ہائوسز اور بیت المال شامل ہیں اور اب حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت نے لنگر پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ یہ سب غریب خاندانوں کو محدود سطح پر ریلیف تو دے سکتے ہیں لیکن انہیں شاید غربت کا حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری طرف ملک کی 22کروڑ آبادی ہے جس میں سے صرف خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 28فیصد سے زیادہ ہے۔ ان حالات میں 44فیصد بچے غذائی قلت کے باعث ذہنی و جسمانی نشوونما سے عاری اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور اس کا سب سے زیادہ اثر 5سال سے کم عمر بچوں، دودھ پلانے والی مائوں اور حاملہ خواتین پر پڑ رہا ہے۔ ملک کے 20اضلاع میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے، جن میں سے بلوچستان کے 10، خیبر پختونخوا کے 8جبکہ گلگت بلتستان اور سندھ کا ایک ایک ضلع قابل ذکر ہے۔ ان آبادیوں کا 90فیصد سے زیادہ حصہ ایسا ہے جہاں ایک ہی شخص کئی افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے۔ اس ضمن میں قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے بجا طور پر پاکستان بیت المال کے بجٹ میں اضافے کی سفارش کی ہے جبکہ متاثرہ اضلاع میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے سمیت دیگر ایسے اقدامات کئے جانا چاہئیں جن سے صحیح معنوں میں تخفیف ِ غربت کے اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین