• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت بہت مبارک ہو۔ میرے ہم وطن پانچ دن سے اپنے سابق آقائوں کے شہزادہ شہزادی کو اپنے روایتی لباس میں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ مائیں بلائیں لے رہی ہیں۔ خوش دامنیں اپنی بہوئوں سے کہہ رہی ہیں، ایسی ہوتی ہیں نیک دامن بہوئیں۔ بزرگ اپنے بیٹوں سے فرما رہے ہیں، دیکھ! ایسے ہوتے ہیں فرمانبردار بیٹے۔ بیویاں اپنے شوہروں سے کہہ رہی ہیں، ایسے ہوتے ہیں تابعدار خاوند۔ ہم سب دولت مشترکہ کے قلاش باشندے ہیں۔ یہ شہزادہ ولیم ہمارا مستقبل کا بادشاہ ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اسے شہزادگی میں دیکھ لیا۔ وہ بھی بادشاہ بننے سے پہلے ان مملکتوں کو دیکھتا پھر رہا ہے۔ کل جو اس کی اقلیم میں ہوں گی۔ نام کے بادشاہ سہی۔ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی برطانیہ والے ان سے عشق کرتے ہیں اور اب پانچ دن سے ہم بھی اس عشق میں مبتلا ہیں۔

آج اتوار ہے۔ مجھے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ ان کے ممکنہ سوالات کے جوابات کی تیاری کر رہا ہوں۔ بالکل ہوم ورک کی طرح۔ جدید طرز کے مہنگی فیسوں والے اے لیول اور او لیول والے ہوم ورک کو ’اسائنمنٹ‘ کہتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ سب سے پہلا سوال جمعیت علمائے اسلام کی ڈنڈوں سے مسلّح فورس کے بارے میں ہوگا کیونکہ اس ہفتے کے دوران میری ایک پوتی مجھ سے پوچھ چکی ہے کہ یہ باریش حضرات ایک سی وردی کیوں پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے کیوں ہیں۔ پھر وہ اپنا آئی پیڈ لے آئی۔ اس میں آر ایس ایس کے لوگ سفید قمیص اور خاکی نیکر میں ڈنڈے لیے دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرا سوال یقیناً برطانوی شہزادہ شہزادی کی پاکستان میں آمد اور ان کے مختلف مقامات کے دوروں کے بارے میں ہوگا۔ درمیان میں سرگوشیاں ہوتی رہی ہیں کہ شہزادہ ولیم کو ابھی تو بادشاہت نہیں ملی ہے۔ پھر کس فکر میں اس کے سر کے بال اڑ گئے ہیں۔

عمر انہی سوالوں کے درمیان گزری ہے۔ اصل بات موقع محل اور وقت کے انتخاب کی ہوتی ہے۔ عین ان دنوں جب مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بہن بھائی، مائیں، بزرگ اور شیر خوار 75دنوں سے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ ان کے رابطے منقطع ہیں۔ پاکستان میں آزاد کشمیر میں اپنے ان بھائیوں کے غم میں پریشانی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے نوجوان لائن آف کنٹرول پار کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اس جواں سال شاہی جوڑے کی آمد یقیناً کشمیریوں کا غم بھلانے میں مدد کرے گی۔ کشمیر کا مسئلہ برطانیہ کا ہی کاشت کردہ ہے۔ اس لیے اس سے ہماری توجہ ہٹانا اور پریشانی کم کرنا بھی برطانیہ ہی کی ذمہ داری ہے۔ وہ کسی خوبصورت شہزادی کے آنے سے ہی کم ہوسکتی تھی کیونکہ عربی شہزادہ آتا ہے تو ہماری پریشانی دو چند ہوجاتی ہے۔ ہمیں وزیراعظم عمران خان کا ممنون ہونا چاہئے کہ ہماری دل لگی کے لیے انہوں نے یہ انتظام کیا اور بکنگھم پیلس کی شکر گزاری بھی کہ انہوں نے دورۂ پاکستان کے لیے تحقیق کی۔ ہماری عادات اور مزاج کا تجزیہ کیا۔ پھر شہزادے شہزادی کے لباس ڈیزائن کروائے۔ یہ شاہی جوڑا جن کی مسکراہٹوں پر ہم سب دن رات فدا ہو رہے ہیں، انہی انگریزوں کی اولادیں ہیں جو انسانوں کو گزشتہ صدیوں میں اپنے غلام بناتے رہے۔ جبر و استبداد کے بازار گرم کرتے رہے۔ ہم جنوبی ایشیا کے رہنے والے بھی دو صدیاں ان کی غلامی میں گزار چکے ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد نے ایک ایک لمحہ کرب میں بتایا۔ دلّی میں ٹکٹکیاں لگیں۔ جلیانوالہ باغ میں لاشیں گریں۔ منٹگمری جیل، احمد آباد قلعہ، شاہی قلعہ، لال قلعہ، بر صغیر میں قدم قدم پر ایسے مقامات ہیں جہاں سر فروش اپنی جانیں نثار کرتے رہے۔

سر فروشی کی تمنّا ’پھر‘ ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

یہ ہمارے سرداروں سے اپنی پالکی اٹھواتے تھے۔ جو انکار کرتا تھا اسے کولہو میں پلوا دیتے تھے۔ یاد کیجئے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو۔ تخت سے محروم کیا۔ پھر دلّی سے رنگون بھجوایا۔ ہماری دولت سمیٹ کر برطانیہ لے جاتے رہے۔ آکسفورڈ اسٹریٹ۔ ریجنٹ اسٹریٹ اور بہت سی شاہراہیں، عمارتیں اور قلعے ہمارے لوٹے ہوئے سرمائے کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے کوئی محکوم گر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

شمال سے آنے والی ہوائیں کہہ رہی ہیں اس خطّے میں کچھ ہونے والا ہے۔ بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں اس ایشیائے کوچک کا جو نقشہ تھا اسے یاد کیجئے۔ اس وقت کے برطانوی ہند، افغانستان، ایران، ترکی، جزیرہ نمائے عرب۔ کس کا انتظام کس کے ہاتھ میں تھا۔ اب کونسے سورما رتھوں پر سوار ان میدانوں سے گزر رہے ہیں۔ مذاکرات امن کے لیے ہو رہے ہیں یا کسی نئی دنیا کی صورت گری ہو رہی ہے۔ دس ہزار میل دور سے ٹرمپ صاحب اس علاقے میں صلح جوئی کے لیے کیوں تڑپ رہے ہیں۔ مجھے پھر اپنی یونیورسٹیوں، اپنے محترم اساتذہ سے مخاطب ہونا پڑتا ہے۔ وہ تاریخ کے اوراق کے شناور ہیں۔ وہ ماضی کی روشنی میں مستقبل کے امکانات پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ہماری رہنمائی کریں ہمارے حکمراں اور ہمارا برقی میڈیا تو لمحۂ موجود کا یرغمالی ہے۔ وہ ہمیں گھر پھونک تماشے میں مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمارے اساتذہ، ہماری جامعات، دینی مدارس کو تو اپنی روایات اور اقدار کے تناظر میں ہوائوں کے تیور دیکھنا چاہئیں۔ اور قافلے والوں کو رہگزر میں بپا قیامتوں سے باخبر کرنا چاہئے۔ شاہی جوڑے کے یہ پانچ دن تو اُردو شاعری میں قصیدہ گوئی کے گریز کا مرحلہ لگتے ہیں۔ جب ممدوح کا ذکر نہایت فطری اور والہانہ انداز میں کیا جاتا ہے یا پھر غزل میں جب سراپا کے لیے قطعہ بند کہا جاتا ہے۔ فی الحال شہزادی کیٹ کے لیے میر کی زبان میں:

سراپا پہ جس جا نظر کیجئے

وہیں عمر ساری بسر کیجئے

تازہ ترین