کئی روز ہوئے، میں نے اپنے دیرینہ دوست محترم مولانا فضل الرحمٰن کے نام اپنے خط میں اُن کے آزادی مارچ/ دھرنے کے حوالے سے سول سوسائٹی اور جمہوری و ترقی پسند حلقوں میں موجود شدید خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے اُن کی توجہ چاہی تھی۔ یہ اُن کی مہربانی ہے کہ وہ اُن سوالات و خدشات کی وضاحت کے لیے گزشتہ جمعہ کو سافما تشریف لائے جہاں سینئر صحافیوں کے علاوہ سول سوسائٹی اور بائیں بازو کے دانشور اُن سے مجادلے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مولانا سے اپنی جیل کی رفاقت اور بحالی جمہوریت میں ہم سفری کے ناتے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، مَیں نے نہ صرف وہ تین سوالات اُٹھائے جن کا ذکر اُن کے نام مکتوب میں کیا گیا تھا۔ بلکہ یہ پُرزور تقاضا بھی کیا کہ بار بار کی جمہوری تحریکوں کے اسقاط کے بعد ضروری ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کی رہبر کمیٹی پاکستان کے عوام کے ساتھ ایک ناقابلِ تحلیل عمرانی معاہدہ کرے جس میں محنت کشوں اور مظلوم لوگوں، اقلیتوں اور خواتین کے تمام انسانی، جمہوری، سماجی، سیاسی اور معاشی و طبقاتی حقوق کی واضح یقین دہانی کرائی جائے۔ اس حوالے سے ’’سول سوسائٹی اور روشن خیال جمہوری قوتوں کا اعلان نامہ: عوامی حقوق، جمہوری بالادستی اور سماجی سلامتی‘‘ بھی مَیں اُنہیں پہلے سے بھیج چکا تھا جس سے اُنہوں نے اور اے پی سی کی دیگر جماعتوں کے رہنمائوں نے اتفاق کیا تھا۔ اب ذرا پہلے ذکر ہو جائے اُن تین سوالات کا جو مولانا کی خدمت میں پیش کیے گئے؛ اول: کیا مولانا کا ہدف بقول اُن کے محض موجودہ سلیکٹڈ حکومت ہے یا پھر نوکرشاہانہ آمرانہ ڈھانچے کی جگہ ایک متبادل جمہوری نظام ہے جو آئینی حکمرانی کو یقین بنائے؟ دوئم: مولانا کے آزادی مارچ کو دو سَروں والی حکومت (Dyarchy) کے کس رُکن کے خلاف ہے یا پھر پورے انتظام کے؟ کہیں یہ تو نہیں کہ جیسے کیسے دُم کٹے سویلین عبور کی جگہ پھر سے کوئی تازہ دم گھڑ سوار آن دھمکے اور جمہوری مزاحمت پھر سے اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں گم ہو جائے۔ سوئم: چونکہ جمعیت علمائے اسلام نے اپنے دیوبندی حلقے کو پھر سے ختمِ نبوت اور شانِ رسالت کے طے شدہ مُدے پہ گرمایا ہے، لہٰذا تشویش ہے کہ آزادی مارچ کے بطن سے کوئی سخت مذہبی انتہاپسندی جنم نہ لے لے۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر سول سوسائٹی نے حقوق کے اعلان نامے اور انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے پر جمعیت علمائے اسلام سمیت اے پی سی کی تمام جماعتوں کی توثیق کا مطالبہ کیا ہے۔ مولانا خوب جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اُنہوں نے کمال صفائی سے پہلے دو سوالوں کے تشفی بھر جواب دیئے اور واضح کیا کہ وہ آئین کی جمہوری منشا اور عوام کی حکمرانی کے لیے میدان میں اُترے ہیں تاکہ عوامی مینڈیٹ کی تذلیل نہ ہو اور ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور سیاست سے باز۔ اب اُن کے آزادی مارچ نے کیا کیا صورتیں لینی ہیں اور اس کے نتائج سے کیا سیاسی سلسلہ چل نکلتا ہے، اُس کی پیش بینی سے ظاہر ہے کہ وہ اجتناب ہی کر سکتے تھے۔ البتہ مذہبی کارڈ کے سوال پر مولانا اپنے جمہوری حق پہ ڈٹتے ہوئے یہ بھول گئے کہ مذہبی انتہاپسندی یا فرقہ واریت سے جمہوریت کا نشیمن بسنے والا نہیں۔مَیں نے ابتدا ہی میں مولانا کو یاد دلایا تھا کہ اُن کے عظیم اکابرین مذہب کو نہ صرف قومیت (Nationhood) کی بنیاد نہیں سمجھتے تھے بلکہ سیکولرازم سے وابستہ رہے۔ اب یہ مولانا پر ہے کہ وہ اپنے اکابرین کی راہ کو غلط سمجھتے ہیں یا پھر اُن کی راہ درست نہیں۔ اس پر اُنہوں نے پناہ لی بھی تو جدیدیت پسند بانی پاکستان کی اسلام کے نام پر مملکت کی تشکیل پر اور ابوالکلام آزاد کی یہ بات بھولتے ہوئے کہ جن علاقوں پہ پاکستان بنا وہ تو پہلے ہی مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ لاہور کے دانشوروں کی اس گرما گرم محفل میں مولانا نے اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کیا۔ جبکہ میرا اصرار تھا کہ آپ پاکستان کے عوام سے اُن کے بنیادی جمہوری و شہری اور انسانی حقوق بشمول خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر ایک عہد نامہ پہ دستخط کریں۔ مَیں نے اُنہیں یاد دلایا کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے کی مذہبی تبدیلی کی آزادی کی شق پر تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے توثیق پہ آمادگی ظاہر کی تھی۔ اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ یو این کے سیاسی و شہری حقوق کے عالمی عہدنامے پر بھی دستخط کر دیں تو پھر وہ تاریخی خلیج پاٹی جا سکتی ہے جس سے انسانی حقوق کے سوال پر سبھی مل کر آواز اُٹھا سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو مولانا کی جمہوریت پسندی پہ انگلیاں اُٹھتی رہیں گی۔ تحریکِ بحالیٔ جمہوریت (MRD) نے ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف ایک واضح جمہوری متبادل دیا تھا اور سیاسی کارکنوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔ مَیں اور مولانا بھی طویل عرصہ ضیا کی جیلوں میں مقید رہے۔ جمہوریت بحال ہوئی بھی تو مصلوب ہونے کے لیے۔ پھر جنرل مشرف آن دھمکے اور دو بار آئین توڑ کر یہ جا وہ جا ہوئے۔ دریں اثنا محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے، جس پر کچھ عمل کے باعث جمہوری عبور دس برس چلا اور اب اس سارے دور کے تقریباً تمام بڑے لیڈر زیرِعتاب ہیں۔ سول اور غیرسول کا عجب مقتدر ڈھانچہ ہے جو آئین سے ماورا رُو بہ عمل ہے۔ اور مولانا اسے اُلٹنے چلے ہیں۔لیکن ہمارے مولانا بہت زیرک، معاملہ فہم اور میانہ روی کے قائل ہیں۔ حد سے گزرنا اُن کی طبیعت میں نہیں۔ اُن کی شکایت جائز ہے کہ بدکلامی کے طوفانِ بدتمیزی میں کسی سے کیا بات ہو؟ اس سے پہلے کہ مولانا عازمِ اسلام آباد ہوں اور 31 اکتوبر کو کنٹینر پر سوار ہوں، سول سوسائٹی کے اعلان نامے سے مَیں چند نکات اُن کے گوش گزار کرتا ہوں:
1۔ عوام کے اقتدارِ اعلیٰ اور اُن کے شہری، انسانی، سیاسی و معاشی حقوق جیسا کہ آئین اور انسانی حقوق (بشمول صحت، تعلیم، روزگار اور اچھی زندگی) کے عالمی اعلان نامے کا تقاضا ہے، کا تحفظ۔ عوام کے حقِ رائے دہی کا احترام و انتظام۔ 2۔ اختیارات کی آئینی تکون اور ریاست کے اداروں کی آئینی حدود میں رہنے اور پارلیمان کی بالادستی کا اہتمام و انصرام اور صوبائی خودمختاری اور وفاقیت کا تحفظ۔ 3۔ ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے شہریوں کے حقوق کا احترام اور تمام شہریوں کے بلامذہبی، صنفی، نسلیاتی اور نظریاتی تفریق کے مساوی حقوق کی یقین دہانی۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں شہریوں کی شکایات کا ازالہ، حقوق کی بحالی اور تعمیرِنو میں عوام کی شرکت۔ 4۔ کرپشن کی تمام صورتوں کا بتدریج خاتمہ اور سب کے احتساب کا واحد شفاف ادارہ جو عدلیہ اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو۔ 5۔ پاکستانی معیشت کی تشکیلِ نو۔ پائیدار اور شراکت ترقی، قرضے کے پھندے اور دست نگری کا خاتمہ۔ 6۔ قومی سلامتی کے جنگجویانہ نظریات کی جگہ عوامی سلامتی و خوشحالی اور امن کا نظریہ۔ کشمیریوں و دیگر مظلوم لوگوں کے جمہوری حقِ خودارادیت کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ایک ایسے روشن خیال، جمہوری، انسانی اور روادارانہ بیانیے کا فروغ جس سے مذہبی شدت پسندی اور خطے میں محاذآرائی ختم ہو۔ اور ہمسایوں سے تنازعات کا پُرامن حل اور علاقائی شراکتی معاشی ترقی کو بڑھاوا ملے۔