• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے والے کہہ رہے ہیں بہت جلد ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے کہ اس کی نہ توقع کی جا رہی ہے نہ امید۔ کل تک مولانا فضل الرحمٰن شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے کا کام سر انجام دے رہے تھے، پھر اچانک جانے کیا ہوا کہ مولانا صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کے تمام زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ ابھی پوری طرح کیا بھی نہیں کہ ایوانِ اقتدار زلزلہ کی سی کیفیت کا شکار ہو رہا ہے، لوگوں کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں۔ بقول شخصے ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں ہوئی، ابھی تو مولانا فضل الرحمٰن نے صرف اصل فلم کا ٹریلر ہی چلایا ہے کہ مولانا صاحب سےمذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم بنا دی گئی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کے لئے وزیر دفاع ہی کو کیوں چنا گیا؟ کیا اُن کے ساتھ باقی اراکین کا انتخاب خٹک صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہے، جن کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا؟ کیا خاص لوگوں کو بھی ٹیم کا حصہ بنایا جائے گا؟ تاہم مولانا کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے اس سے بات کرنے سے مولانا صاحب نے منع کر دیا ہے۔ مولانا صاحب بے خوف و خطر میدان میں کود پڑے ہیں، اب تمام سیاسی جماعتوں کو بھی لگنے لگا ہے کہ مولانا صاحب میدان مار لیں گے یا کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔ اسی لئے مولانا کی قوت بڑھتی جا رہی ہے شاید مولانا فضل الرحمٰن کی بڑھتی قوت کو دیکھتے ہوئے ہی کچھ حلقوں نے سیاسی احتجاج میں کسی بھی مداخلت سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے۔ اب حکومت کےساتھ بیورو کریسی ہی کھڑی نظر آ رہی ہے، وہ بھی کب تک کھڑی رہ سکے گی؟ ہوا کا رخ دیکھنے کی مہارت اُن میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے، کوئی آئے کوئی جائے، اُن کی نوکری پکی ہوتی ہے۔ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ اپنی ملازمت کودائو پرنہیں لگاتے۔ ابھی تو وہ تیل دیکھ رہے ہیں اور تیل کی دھار، متحدہ حزب اختلاف کا یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا نوکرشاہی انتظار کرے گی۔ملک میں پھیلی بے چینی مہنگائی، بیروزگاری، ضروریاتِ زندگی کا قوتِ خرید سے باہر ہونا اس کے باوجود حکمرانوں اور اسٹیٹ بینک کا یہ کہنا کہ مہنگائی تو ابھی اور بڑھے گی، عوام کی موجودہ مہنگائی سے ہی چیخیں نکل رہی ہیں مزید مہنگائی سے کیا حشر ہوگا؟ مولانافضل الرحمٰن نے بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھایا ہے۔ گرم لوہے پر انہوں نے بروقت چوٹ لگائی ہے۔ حکومت اور حکمرانوں کے کمزور پہلو عوام کے سامنے ہیں، اگر مولانا فضل الرحمٰن اپنی کوشش میں کسی طرح ناکام کر دیے جاتے ہیں تو پھر آنے والا ہر لمحہ وطن کے لئے مشکلات سے بھرپور ہوگا۔ مولانا کی ناکامی سے حکومت کے حوصلے بلند ہو جائیں گے پھر وہ مقید سیاسی قیادت کے ساتھ جو بھی کریں گے، وہ اُن کےحساب سے کم ہی ہوگا۔ اللہ کرے کہ مولانا صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہوں تاکہ عوام کو کچھ تو ریلیف ملے۔ زیرِ عتاب قیادت پر چوری و کرپشن کے الزامات ہیں جو مہینوں گزرنے کے باوجود نہ ثابت کئے جا سکے ہیں، نہ اُن مقدمات کا کسی طرح فیصلہ ہی آ سکا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کی کہانی چل رہی ہے۔ کوئی سننے والا، ہاتھ پکڑنےوالا نہیں ہے۔ تمام وعدے ہوا ہوئے۔ بڑی ہٹ دھرمی سے ہر وعدے سے مکرنے کو اپنی سیاست کا جوہر بنا لیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اللہ نے دو کان اس لئے ہی دیے ہیں کہ ایک کان سے سنیں، دوسرے سے نکال دیں۔ ویسے بھی ایک کہاوت ہے دنیا کہنے کے لئے دریا بہنے کے لئے۔ مخالفین جو کچھ کہتے ہیں کہنے دو، اپنے کام سے کام رکھو لیکن اس سب کے باوجود ایک خوف کی فضا نے گھیر رکھا ہے، جلد یا بدیر سب کھل کر سامنے آ جائے گا کہ کون کامیاب ہوتا ہے عوام یا سرکار۔

تازہ ترین