کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے اتار چڑھاو کا شورشرابا تو بہت ہوتا ہے لیکن نشانہ بننے والے 98.30 فیصد لوگ قانونی چارہ جوئی ہی نہیں کرتے۔
کراچی میں گزشتہ 23 دنوں کے اسٹریٹ کرائم کے تجزیے کے دوران محض 1.7 فیصد لوگوں نے مقدمات درج کرائے۔ شہریوں کی عدم دلچسپی کے یہ اعدادوشمار کراچی پولیس کی "وکٹم اسپورٹ سروس" کے ایک سروے کے دوران سامنے آئے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر غلام نبی میمن نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی لہر کے حوالے سے "جنگ" سے گفتگو کے دوران یہ دلچسپ اعداد و شمار پیش کئے۔ پولیس چیف کے مطابق کراچی پولیس کے مرکزی دفتر کے پی او میں قائم "وکٹم اسپورٹ سروس" کا کام شہر میں اسٹریٹ کرائم کا نشانہ بننے والے شہریوں سے رابطہ کرکے انہیں پولیس کی جانب سے ہر ممکن مدد فراہم کرنا ہے۔
طریقہ کار کے مطابق وی ایس ایس آفیسرز لٹنے والے کسی بھی شہری کے فون نمبر پر رابطہ کرتے ہیں، ان سے واردات کی تفصیل معلوم کرتے ہیں، شہریوں سے پوچھا جاتا ہے کہ واردات کے بعد تھانے کی پولیس کا ان کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ اور یہ کہ انہیں قانونی کارروائی کے سلسلے میں کیا دشواری پیش آئی۔؟
کراچی پولیس چیف کے مطابق 22 ستمبر 2019 سے 14 اکتوبر تک سی پی ایل سی کی جانب سے 770 موبائل فون چھینے یا چوری ہونے کی رپورٹ درج کی ہیں۔ وی ایس ایس کے آفیسرز نے ان تمام موبائل فون مالکان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق وی ایس ایس آفیسرز 561 موبائل فون کے مالکان سے بات کرنے میں کامیاب ہوسکے، جبکہ 205 موبائل فون مالکان سے رابطہ نہیں ہوسکا یا انہوں نے فون کال اٹینڈ ہی نہیں کی۔
تجزیہ کے مطابق 770 موبائل فون کے مالکان میں سے محض 13 شہریوں نے مختلف تھانوں میں موبائل فون چھینے جانے کے مقدمات درج کرائے۔ چھینے گئے موبائل فون کے تناسب سے یہ تعداد 1.70 فیصد بنتی ہے یعنی 98.30 فیصد لوگوں نے وی ایس ایس آفیسرزکے رابطہ کرنے اور ان کی ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کے باوجود اسٹریٹ کرائم کا مقدمہ درج کرانے یا کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ پولیس کی وکٹم اسپورٹ سروس کے انچارج انسپکٹر عادل رشید ،اس سلسلے میں عوامی دلچسپی سے بھرپور حقائق سامنے لائے ہیں۔
تجزیاتی رپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کا ڈیٹا میڈیا کی طرح انہیں بھی سی پی ایل سی فراہم کرتی ہے۔ سی پی ایل سی یہ اعداد و شمار شہریوں کی جانب سے بلاک کرائے گئے موبائل فون یا فون سم کے ڈیٹا سے جمع کرتی ہے۔ شہری اس طرح کا عمل موبائل فون چھینے، چوری ہونے یا لاپتہ ہونے کی صورت میں کرتے ہیں۔ عادل رشید کے مطابق چھینی یا چوری کیے گئے 770 موبائل فون عام طور پر اسٹریٹ کرائم کی 770 وارداتوں کے زمرے میں لئے جاتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وی ایس ایس آفیسر نے جب بلاک کرائے گئے 770 موبائل فونز کے مالکان سے رابطہ کیا تو درحقیقت یہ وارداتیں 500 سے بھی کم پائی گئیں کیونکہ اسٹریٹ کرائم کی واردات کے دوران زیادہ تعداد ایسے شہریوں کی پائی گئی ہے جن کے پاس واردات کے وقت دو دو یا تین تین موبائل تھے جو ملزمان لے اڑے۔ عادل رشید کے مطابق چونکہ لٹنے والوں نے تمام موبائل فون بلاک کرائے اس لئے یہ ایک واردات گننے کی بجائے چار یا پانچ وارداتوں کی صورت میں ریکارڈ پر آئی۔
سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ اسٹریٹ کرائم کی ایک واردات میں دو دو لوگ لوٹے گئے جن کے پاس مجموعی طور پر پانچ سے زائد موبائل فون تھے۔ وی ایس ایس سروے کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ 770 میں شامل ایک موبائل فون کسی گھر میں گم ہوگیا۔ بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے اہل خانہ کا اس موبائل ڈیوائس سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ اہل خانہ نے اس کے چوری ہوجانے کا تاثر لے کر موبائل فون کمپنی میں رابطہ کرکے سم کارڈ بلاک کرادیا۔
اگلے روز گھر کی صفائی کے دوران وہ موبائل فون اہل خانہ کو واپس مل گیا۔ یوں اس موبائل فون کی گمشدگی بھی اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافے کا سبب بنی۔ عادل رشید کے مطابق کچھ عرصہ پہلے موبائل فونز کی کھیپ ڈیلیوری کے دوران کسی نے تاجر کے ساتھ کئی سو موبائل فون کا فراڈ کیا۔ وہ موبائل فون بلاک کرائے گئے تو اس ماہ اسٹریٹ کرائم کے اعداد و شمار بلند ترین سطح پر ریکارڈ ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں وی ایس ایس انچارج کا کہنا تھا کہ جن 13 لوگوں نے مقدمات درج کرائے ان سے بھی لگ بھگ 19 موبائل فون چھینے گئے۔