• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب قانون میں ترمیم کے بغیر الگ سے کمیٹی نہیں بنائی جاسکتی، علی ظفر

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےماہر قانون سید علی ظفر نے کہا ہے کہ نیب قانون میں ترمیم کے بغیر نیب کے اوپر کوئی الگ سے کمیٹی نہیں بنائی جاسکتی۔

نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ اعلیٰ حکام نے مجھے اہم بات بتائی کہ رانا ثناء اللّہ کی گرفتاری سے پندرہ دن پہلے وہ ان کی ریکی کررہے تھے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ سے نمٹنے کی بھرپور تیاریاں کررہی ہے۔ 

ماہر قانون سید علی ظفر نے کہا کہ کاروباری برادری کی شکایات کچھ حد تک درست تھیں، بہت سے کیسوں میں نیب کے تحقیقات کاروں نے پراسیکیوشن شروع کردی تھی، یہ کیس بے بنیاد تھے ان میں اتنی جان نہیں تھی کہ پراسیکیوشن کی جائے، نیب قانون میں ترمیم کے بغیر نیب کے اوپر کوئی الگ سے کمیٹی نہیں بنائی جاسکتی ہے، نیب نے ابھی جو کمیٹی بنائی ہے وہ صرف ایڈوائزری کردار ادا کرسکتی ہے، یہ کمیٹی نیب کو کسی کیس پر کارروائی کرنے سے نہیں روک سکتی ہے، کمیٹی چیئرمین نیب کو سفارشات پیش کرے گی وہی فیصلہ کریں گے کہ کیس بنتا ہے یا نہیں بنتا ہے، حکومت کو آگے چل کر قانون سازی کر کے بااختیار کمیٹی بنانا ہوگی جو بزنس کمیونٹی کے خلاف دائر کیسوں کو جانچ سکے۔

نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ اعلیٰ حکام نے مجھے اہم بات بتائی کہ رانا ثناء اللّہ کی گرفتاری سے پندرہ دن پہلے وہ ان کی ریکی کررہے تھے، وزارت قانون نے جج مسعود ارشد کے خلاف نوٹس واپس لے لیا ہے جس میں ان پر سنجیدہ الزامات لگائے گئے تھے، دوسرے جج مشتاق الٰہی پر بھی الزامات لگا کر کام کرنے سے روکا گیا تھا اب انہیں بھی دوبارہ تعینات کردیا گیا ہے۔

یاد رہے جج مشتاق الٰہی لاہور احتساب عدالت میں اہم کیسز سن رہے تھے ان میں ایک اہم کیس طیبہ فاروق کا تھا، مبینہ طور پر طیبہ فاروق وہ خاتون ہیں جن کی چیئرمین نیب کے ساتھ ویڈیو سامنے آئی تھی، وزارت قانون میں نہ صرف سیکرٹری کو ہٹایا گیا ہے بلکہ کئی پوسٹیں تبدیل کی گئی ہیں، تیسرے ہٹائے جانے والے جج نعیم ارشد جو شریف فیملی کے اہم کیسز سن رہے تھے انہیں بھی انسداد دہشتگردی عدالت بہاولپور میں تعینات کردیا گیا ہے۔

زاہد گشکوری نے بتایا کہ اے این ایف کے اعلیٰ حکام نے مجھے تفصیل سے بریفنگ دی ہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ رانا ثناء اللہ کا کیس جولائی میں آیا تھا جبکہ اے این ایف کے اعلیٰ حکام نے اپریل میں ہی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بریفنگ میں جج مسعود ارشد کے خلاف مواد پیش کردیا تھا۔

رانا ثناء اللٰہ کیس میں تاخیر کے حوالے سے مجھے بتایا گیا کہ اے این ایف کا رانا ثناء اللّہ کیس میں جج کی تعیناتی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، یہ وزارت قانون اور لاہور ہائیکورٹ کا خفیہ معاملہ ہوتا ہے ہم اس میں عمل دخل نہیں کرسکتے ہیں۔

اے این ایف حکام نے تفصیل سے بتایا کہ بطور ثبوت ویڈیو کا جو معاملہ ہے اس پرا نہوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ وہ ملزمان پر چارج فریم کرنے کیلئے دو درخواستیں دے چکے ہیں لیکن 108دن گزرنے کے بعد بھی چارج فریم نہیں کیا گیا ہے، اعلیٰ حکام نے مجھے اہم بات بتائی کہ رانا ثناء اللّہ کی گرفتاری سے پندرہ دن پہلے وہ ان کی ریکی کررہے تھے، رانا ثناء اللّہ کی گرفتاری کے وقت ویڈیو کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ آن دا اسپاٹ صورتحال خراب ہوگئی تھی اس وجہ سے اس وقت ویڈیو نہیں بنائی جاسکی۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئےمزید کہا کہ حکومت مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ سے نمٹنے کی بھرپور تیاریاں کررہی ہے، وزارت قانون نے سنگین الزامات لگا کر رانا ثناء اللّہ کا کیس سننے والے جج مسعود ارشد کو کام کرنے سے روک دیا تھا، ان کی جانبداری اور ساکھ پر سوال اٹھایا گیا تھا لیکن دو ماہ بعد انہیں دوبارہ تعینات کردیا ہے، اس تعیناتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ یہ جج بہت اہم کیس سن رہے تھے اور انہیں کام کرنے سے روکنے کے بعد تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا، جج مسعود ارشد ڈھائی سال سے انسداد منشیات کی عدالت میں تعینات تھے، بہت سے مقدمات کی سماعت اور فیصلے دے چکے تھے۔

مگر جب انہوں نے رانا ثناء اللّہ کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنانا تھا تو انہیں اچانک تبدیل کردیا گیا تھا، اہم خبر یہ ہے کہ جج مسعود ارشد کو دوبارہ تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، 4 اکتوبر کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جج مسعود ارشد کو ملتان میں انسداد دہشتگردی کی عدالت میں تعینات کیا گیا ہے۔ 

سوال اٹھ رہا کہ اگر جج مسعود ارشد کی ساکھ مشکوک تھی، ان کی جانبداری پر حکومت کو شک تھا تو ان کے خلاف تحقیقات ہو کر فیصلہ ہونا چاہئے تھا یا انہیں دوبارہ تعینات کردینا چاہیے تھا۔

یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت صرف مسعود ارشد کو انسداد منشیات کی عدالت سے ہٹانا چاہ رہی تھی کیونکہ اب انہیں بحال کردیا گیا ہے، یہ بہت اہم معاملہ ہے کیونکہ رانا ثناء اللّہ کے کیس میں حکومتی کردار پر پہلے ہی سوال اٹھ رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ جج مسعود ارشد کے ساتھ جج مشتاق الٰہی اور جج نعیم ارشد کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

تازہ ترین