اختر حفیظ
برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی کے دنوں میں کافی شہروں میں مختلف مقامات پر کلاک ٹاورز بنائے گئے تھے۔ یہ کلاک ٹاورز مارکیٹوں میں لگے ہوتے تھے، جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ لیکن اس زمانے کی اچھی بات یہ تھی کہ ان کلاک ٹاورز کی نہ صرف دیکھ بھال ہوتی تھی بلکہ انہیں اہم بھی سمجھا جاتا تھا۔
آج ہمارے شہروں میں اکا دکا ہی کلاک ٹاور ہی ہیں جو بہتر حالت میں ہیں اور ان گھنٹہ گھروں میں نصب گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
کراچی کبھی ’عروسہ ایشیا‘ رہا ہے، مگر آج اس کی حالت کافی بدحال نظر آتی ہے، انگریزوں کے زمانے میں تعمیر کی گئی عمارات آج خستہ حالی کا شکار ہیں،جس کی وجہ سے اس شہر کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔
لی مارکیٹ کراچی کی اہم ترین مارکیٹوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ مارکیٹ اس شہر کی سب سے پرانی مارکیٹ بھی ہے، جہاں نصب ٹاور کلاک کی عمارت اب تجاوزات کی وجہ سے کم ہی دکھائی دیتی ہے، اس کا اصل چہرا جیسے ریڑھوں، رکشوں اور سبزی بچنے والوں سے ڈھک سا گیا ہے۔ ٹاور کلاک ہی نمایاں طور نظر آتا ہے، مگر باقی عمارت کے خدو خال مشکل سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
گندگی میں گھرے ،اس لی مارکیٹ کے ٹاور کلاک کی تاریخ سے یہاں کاروبار کرنے والے واقف ہی نہیں ہیں، وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ انگریزوں کے زمانے کی بنائی ہوئی عمارت ہے اور بہت پرانی ہے۔ یہ عمارت در حقیقت اس وقت کے انگریز انجینئر میشم لی کے نام سے منسوب ہے۔، جہنوں نے کراچی کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس زمانے میں جب یہ مارکیٹ تعمیر ہوئی تو یہاں سبزیاں، پھل اور دیگر زرعی اجناس کا کاروبار شروع ہوا۔
یہ 1927 کا زمانہ تھا، جب یہ مارکیٹ تیار ہوئیم، تب یہ کراچی کا ایک معاشی مرکز بنا اور لوگوں کے لیے اس تک رسائی بھی آسان تھی۔ اس کے علاوہ، نیپئر روڈ، امباک مئن روڈ، ریور سٹریٹ، کندن سٹریٹ، شیدی گوٹھ روڈ اور دیگر کئی روڈ اس مارکیٹ سے جڑے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اس مارکیٹ کی تعمیر پہ ایک لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی تھی۔
سنہ1937 میں اس عمارت کے مزید دو بلاک بنائے گئے، کیوں کہ یہاں صارفین کے ضروریات بڑھ گئی تھیں، اس سلسلے میں 1940 میں کلاک ٹاور بھی نصب کیا گیا، یہ ٹاورکلاک اس علاقے کی ایک خاص شناخت بن گیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کلاک کی سوئیاں تھم گئی، مگر وقت چلتا رہا اور لی مارکیٹ بد سے بدتر بن گئی۔
یہ ایک خوبصورت سی عمارت تھی، جہاں کاروبار کرنے والے لوگوں کے لیے کافی سہولیات تھیں، جیسا کہ اس عمارت کی چھت کو جس طرح اس زمانے میں لوہے کی چادروں سے ڈھانپ کر تیار گیا گیا، تاکہ یہاں کاروبار کرنے والے بارشوں اور دیگر موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ ایک بڑے سے ہال میں لوگ آج بھی مچھلی، گوشت اور سبزیاں بیچ رہے ہیں، مگر ان کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ یہ مارکیٹ دن بدن زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ اس قسم کی عمارات ہمارے ماضی کا پتہ دیتی ہیں، اور ان سے کئی تاریخی واقعات بھی جڑے ہوتے ہیں۔
آج ٹاور کلاک کی منزل کی جانب جانے والے دروازے بند ہیں، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آخری بار اس گھنٹہ گھر سے گھنٹی کب بجی تھی اور کب کسی شہری نے اس کی جانب دیکھ کر وقت دیکھا ہوگا۔ لیکن آج یہ ٹاور محض سبزی اور پھل فروشوں سے گھرا ہوا ہے۔ جبکہ یہاں کاروبار کرنے والوں کو ماضی میں شہری حکومت یہ جگہ خالی کرنے کا بھی کہہ چکی لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ہے۔
آج انجینئر لی تو نہیں رہا ،مگر اس کی تعمیر کی گئی لی مارکیٹ اور کلاک ٹاور اسی جگہ ہی موجود ہیں، جس کی سوئیاں اب ایک ہی جگہ ساکت ہیں۔ جہاں سے اب ہر گھنٹے پر کوئی گھنٹی نہیں بجتی ہے،مگر یہ کراچی شہر کا ایک شاندار ورثہ ہے، جسے بچانے اور محفوظ کرنا نہ صرف حکومت بلکہ کراچی کے لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔
اس لیے اس مارکیٹ کی بحالی اور اس کو ایمپریس مارکیٹ کی طرح اصل شکل میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو یہ پتہ چل سکے کہ ہم بھی ایسی تاریخی عمارت کے قدردان ہیں۔