اگر آپ دن بھر میں مقررہ حد سے زائد کام کرنا شروع کردیں تو آپ میں بال گرنے کی رفتار دیگر افراد سے تیز ہوجائے گی۔
نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ ایک ہفتے میں 52 گھنٹے کام کرتے ہیں ان کے بال 40 گھنٹے کام کرنے والے افراد سے دو گنا زیادہ تیزی سے گرتے ہیں۔
یہ تحقیق جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کی سنگ کیوکوان یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے محققین نے کی، جس میں 2013 سے 2017 تک 20 سے 59 سال عمر کے 13 ہزار 3 سو 91 افراد کا مشاہدہ کیا۔
اپنی رپورٹ میں محققین کا کہنا تھا کہ تھا کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے انسان دباؤ کا شکار رہتا ہے اور اسے آرام کے لیے زیادہ وقت مہیا نہیں ہو پاتا۔
یہ ممکنہ طور پر زیادہ وقت تک کام کرنے سے بال گرنے کی وجہ پر پہلی تحقیق ہے۔
شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہارمون کی سطح میں تبدیلی رونما ہوتی ہے جو جسم کے مختلف حصوں پر تباہ کن اثرات چھوڑ جاتی ہے، جب اضافی ہارمونز بن جاتے ہیں تو وہ بالوں کی نشونما کو بھی روکنا شروع کردیتے ہیں۔
اس سے قبل تحقیقی مقالے میں یہ بتایا گیا تھا کہ دباؤ کی وجہ سے مدافعتی نظام کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں جو بال پیدا کرنے والے فولیکلز پر حملہ کرتے ہیں، تاہم اس کی وجوہات اب تک کسی کو نہیں معلوم ہوسکیں۔
اگر بال نکلنے کا عمل نہ ہو رہا ہو تو اس کے ٹوٹنے کے بعد وہاں پر خالی جگہ رہ جاتی ہے۔
اس تحقیق میں شامل لوگوں نے قانون سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کے دفتر اوقات کو محدود کیا جائے تاکہ اس مخصوص وقت تک ملازم سے کام لیا جاسکے۔
سنگ کیوکوان یونیورسٹی میں محققین نے ان 13ہزار سے زائد افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا جن میں ایک ہفتہ وار 40 گھنٹے جبکہ دوسرا 52 گھنٹے کام کرتا تھا لیکن دونوں کے لیے ان کی عمر، تعلیم، ازدواجی حیثیت، ماہانہ آمدنی، سیگریٹ نوشی کی عادت اور کام کے شیڈول کے اثرات کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق جو لوگ ایک ہفتے میں 40 گھنٹے کام کرتے تھے ان میں بال گرنے کا خطرہ 2 فیصد جبکہ دوسرے گروپ میں یہ خطرہ 4 فیصد تک ہے۔
اس تحقیقی مقالے کے مرکزی مصنف کیونگ ہن سون کا کہنا تھا کہ اس مقالے نے ہمیں یہ بتایا کہ مرد ملازموں میں کام کرنے کی طوالت بال گرنے سے جڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ بالوں کو گرنے سے روکنے کے لیے ورکنگ آورز کو محدود کرنا زیادہ ضروری ہوگیا ہے بالخصوص ان لوگوں میں جن کی عمریں 20 اور 30 کے عشرے میں ہیں کیونکہ اکثر اس عمر میں ہی بال گرنے کے اشارے ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ اینلز آف آکیوپیشنل اینڈ انوارمینٹل میڈیسن جرنل میں شائع ہوئی، اس میں خواتین پر تحقیق نہیں کی گئی تھی۔