گوادر بندرگاہ کا انتظام چین کے حوالے کرنے کے معاہدہ پر دستخط ہوگئے ہیں جس کے بعد چینی کمپنی نے منافع میں حصہ داری کی بنیاد پر بندرگاہ کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ بلاشبہ اس معاہدے سے بلوچستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ معاہدہ پر دستخط اسلام آباد میں ہوئے۔ اس موقع پر صدرزرداری کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ پاک چین دوستی کا ایک تاریحی دن ہے اور پاک چین دوستی وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ گوادر میں گہرے پانیوں کی یہ بندرگاہ درحقیقت روس اور چین سمیت علاقے کے بیشتر ملکوں کے بیرونی دنیا سے تجارتی رابطوں کا ایک اہم ذریعہ ہوگی۔ اس کی تعمیر پاک چین دوستی کی بہترین مثال ہے جسے بعض بیرونی قوتوں کی مخالفت اور بیجنگ اسلام آباد تعلقات کو نقصان پہنچانے پر کمربستہ عناصر کی مذموم کارروائیوں کے باوجود کامیابی سے تکمیل تک پہنچایا گیا ہے اور اب اس کا انتظام چینی کمپنی کے حوالے کرنا بندرگاہ کو آپریشنل کرنے کی تیاریوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ چینی اثر و رسوخ سے خائف بعض قوتیں اس بندرگاہ کے حوالے سے شروع سے خدشات ظاہر کرتی رہی ہیں۔ لیکن پاکستان میں چین کے سفیر کے مطابق یہ پاکستان اور چین کا معاملہ ہے اس سے کسی کو پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے۔ چین اسے عسکری مقاصد کیلئے ہرگز استعمال نہیں کرے گا۔ چین پاکستان میں 120منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ ہماری دوستی ہر آزمائش میں پوری اتری ہے اس بندرگاہ کی تعمیر سے چین کے علاوہ ترکی، ایران، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان کو باہمی تجارت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور بالخصوص بلوچستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ چین نے اس بندرگاہ کی تعمیر کیلئے پاکستان کو پچیس کروڑ ڈالر کی امداد دی اور دوران تعمیر کئی چینی ماہرین دہشت گردوں کا نشانہ بنے مگر چینی دوستوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دیدی ہے۔ غیر ملکی دباؤ کے باوجود پاکستان کے مفادات کے پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں منصوبوں میں پیشرفت سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔