رواں برس نوبیل پرائز اُن تین سائنس دانوں کے حصّے آیا، جنہوں نے نئی دُنیائوں کی دریافت کے لیے بے مثال تحقیق کی۔ آسٹروفزکس یانجمی طبیعیات سے تعلق رکھنے والے ان تین ماہرین میں سے جِم پیبلز کا تعلق امریکا، جب کہ مائیکل میئر اور ڈیڈیئر کوئلوز کا سوئٹزر لینڈ سے ہے۔ پیبلز نے اپنی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہماری کائنات کیسے وجود میں آئی، اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور یہ آپس میں کیسے جُڑے ہوئے ہیں، جب کہ میئر اور ڈیڈیئر نے اپنی تحقیق کا محور و مرکز سیّاروں کو بنایا۔ انہوں نے نظامِ شمسی سے باہر ایک ایسا سیّارہ دریافت کیا کہ جو سورج کی بہ جائے کسی اور ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے۔ ایسے سیّاروں کو خلائی سائنس کی اصطلاح میں ’’ایگزو پلینیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ خلا میں ایسے چار ہزار سے زاید سیّارے موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ان کارناموں کو سائنس فکشن اور سازشی فلسفے قرار دے کر رد نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ خلا کو تسخیر کرنے کی اس مُہم میں امریکا، یورپ، جاپان، چین، رُوس اور بھارت جیسے ممالک حصّہ لے رہے ہیں۔
ہمارے حُکم ران، اہلِ دانش اور سیاست دان ہمہ وقت، بالخصوص نوجوانوں کو قومی ترقّی کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور سخت محنت کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور ہر حکومت ٹیکنالوجی کے فروغ کا دعویٰ بھی کرتی ہے، لیکن پھر وقتاً فوقتاً تعلیمی نظام کے ناقص، غلامانہ سوچ کے حامل ہونے اور اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے بیانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ ہمارے وہ رہنما ہی نصاب کو غلامانہ سوچ کا حامل قرار دیتے ہیں کہ جنہوں نے خود برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور اس دوران انہیں لمحہ بَھر کے لیے بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا، حالاں کہ پاکستانی قوم تو گزشتہ 72برس سے سِسک سِسک کر جی رہی ہے۔
پھر نصاب میں انقلابی تبدیلی لانے کی بات کرتے ہوئے ان کے ذہن سے یہ بات بھی نکل جاتی ہے کہ ان کے اپنے بچّے کیمبرج اور اوکسفرڈ سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کر کے ترقّی کی منازل طے کرتے ہیں۔ یہ انگریزوں کے نظامِ تعلیم کو مات دینے کا فخریہ دعویٰ کرتے ہیں، لیکن کیمبرج اور اوکسفرڈ سسٹم کے نام پر قائم ہونے والے بیش تر اسکولز میں تعلیم و تربیت کے نام پر بچّوں کو تیراکی سکھائی جا رہی ہے اور کباڑیوں سے پُرانے کمپیوٹرز خرید کر آئی ٹی کی تعلیم کے نام پر بچّوں اور اُن کے والدین کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ تاہم، اس قوم کو کبھی اس بات پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی، کیوں کہ یہ بچّوں کو نان نفقے اور نام نہاد معیاری تعلیم کی فراہمی ہی میں اپنی نجات سمجھتی ہے۔
ہمارے مقرّرین اسٹیو جابز اور بِل گیٹس کی مثالیں پیش کر کے خود کو اسکالرز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اسٹیو جابز، آئن اسٹائن، ردر فورڈ، نیوٹن اور گیلیلیو جیسی شخصیات کیسے جنم لیتی ہیں اور ان کے کارناموں کو آگے کیسے بڑھایا جا رہا ہے۔ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ دُنیا میں نِت نئی دریافتیں اور ایجادات کیوں کر ممکن ہو رہی ہیں۔ نیز، تخیّل سے تخلیق تک کے مراحل کس طرح طے ہوتے ہیں اور نہاں، عیاں میں کیسے بدلتا ہے۔
بہر کیف، پندرہویں صدی عیسوی کے بعد مغرب پر ایجاد و دریافت کا جنون سوار ہوا۔ یہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کا دَور تھا۔ اس دوران یورپی باشندوں نے دوسرے برِ اعظموں میں نئی نئی انسانی آبادیاں دریافت کیں، لیکن پھر بھی تشنگی باقی رہی، تو خلا کی تسخیر میں مصروف ہو گئے۔ دُور بین ایجاد کرنے کے بعد گیلیلیو نے نظامِ شمسی اور سورج کے گرد گردش کرنے والے سات سیّاروں کے بارے میں اپنی تھیوریز پیش کیں۔ پھر مغرب نے سمندر کی تہہ میں نئے نئے جہان تلاش کرنا شروع کیے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ میں یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یورپی دانش وَروں اور مفکرین نے اپنی تحریروں کے ذریعے ذہنوں کے دریچے کھولے اور پھر نئی دُنیائوں کی تلاش کا سفر شروع ہوا۔ مثال کے طور پر آج سے تقریباً تین سو سال پہلے جولز ورنے نے ’’From The Earth To The Moon‘‘ نامی اپنے ناول میں ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر پیش کیا تھا کہ جو طاقت وَر توپ سے لانچنگ کے بعد چاند کے مدار میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کے گرد چکر لگانا شروع کر دیتا ہے۔ بعد ازاں، اس اسپیس شپ کا سفر زمین پر واپسی کی صورت اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اپنے دوسرے ناول میں جولز نے ایک ایسے سیّارچے کی داستان قلم بند کی ہے، جو خلا سے متعلق نِت نئے راز دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ تاہم، اسی ناول نگار کے ایک شاہ کار، Twenty Thousand Leagues Under the Seaمیں پہلی مرتبہ ایٹمی طاقت سے چلنے والی ایک ایسی آب دوز کا تصوّر پیش کیا گیا کہ جو سمندر کی اتھاہ گہرائی میں پہنچنے کے بعد آبی دُنیا کے سَر بستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ یہ تمام ناولز بیسٹ سیلر ثابت ہوئے اور کم و بیش تمام یورپی زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا۔ ان ناولز ہی کے سبب مغربی باشندوں بالخصوص طلبہ میں خلا اور سمندر کی سیر کی تڑپ پیدا ہوئی۔ نتیجتاً، جدید ترین خلائی جہاز اور آب دوزیں وجود میں آئیں۔
واضح رہے کہ اس وقت خلا میں تحقیق اور چاند کے گرد چکر لگانے کا اعزاز 9ممالک کو حاصل ہو چکا ہے اور چاند کی جانب تجارتی پرواز کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہونے کو ہے۔ جولز کے علاوہ ایک اور سائنس فکشن رائٹر، ایچ جی ویلز نے فلکیات کے موضوع پر خاصے متنوّع ناولز لکھے ۔ ان کا ناول، ’’The First Men in the Moon‘‘ پڑھیں، تو آنکھوں کے سامنے ’’اپالو 11‘‘ کا مِشن گھومنے لگتا ہے۔ ایچ جی ویلز نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنے ناول میں انسان کو چاند پر اتارا اور سائنس دانوں نے 20ویں صدی عیسوی میںاس کے تخیّل کو حقیقت کا رُوپ دیا۔
مذکورہ ناول میں تخیّل کی پرواز اپنے عروج پر ہے اور مستقبل کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ ویلز کے ایک ناول، ’’A Joureny To The Centre Of Earth‘‘ میں سائنس دانوں کو ڈائنو سار کے زمانے میں سفر کرتے دکھایا گیا ہے۔ بعد ازاں، اس ناول سے متاثر ہو کر سائنس دانوں نے اپنا دریافت کا سفر آگے بڑھایا۔ اسی طرح ایچ جی ویلز کے شہرۂ آفاق ناول، ’’The Time Machine‘ ‘ کےمرکزی کردار کو ماضی اور مستقبل میں سفر کرتے دکھایا گیا ہے۔
یہ کردار روشنی سے بھی زیادہ رفتار سے سفر کرتا ہے اور اب خلائی طیّارے ہزاروں مِیل فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کر کے مریخ تک پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، جس روز انسان نے روشنی سے بھی زیادہ رفتار سے سفر کرنا شروع کر دیا، تو اس کا وجود ہی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔ ویلز کی ایک اور غیر معمولی تخلیق، ’’Invisible Man‘‘ میں انسان کو غائب ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مذکورہ ناول میں سائنس دان ایک ایسی دوا تیار کرتا ہے کہ جسے پی کر انسان نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس وقت حقیقت میں ایک دکھائی نہ دینے والا آدمی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ البتہ کلوننگ کے ذریعے ایک ’’ڈولی‘‘ نامی بھیڑ بنا لی گئی ہے۔ تاہم، اس عمل کی اخلاقی و قانونی پیچیدگیوں پر بحث جاری ہے۔
ایچ جی ویلز کی ایک اور لاجواب تخلیق، ’’War Of The Worlds‘‘ ہے، جس میں پہلی مرتبہ خلائی مخلوق کا تصوّر پیش کیا گیا۔ یہ مخلوق خلائی جہازوں کی مدد سے ہماری زمین پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اس کے جدید ہتھیاروں کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ تاہم، جراثیم اس مخلوق کا صفایا کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج سے 300برس پہلے جو تصوّرات انسان کی توجّہ کا مرکز بنے، وہ اب حقیقت کا رُوپ دھار چکے ہیں۔ تیز رفتار طیّاروں، اسپیس شپس، روبوٹس، مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ نے انسانوں کا طرزِ زندگی ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
تخیّل کی پرواز اور ترقّی کا سفر ایک ساتھ تیزی سے جاری ہے۔ غالب نے آج سے ڈیڑھ صدی قبل کہا تھا کہ ؎رَو میں ہے رخشِ عُمر کہاں دیکھیے تھمے …نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پاہے رکاب میں۔ آج کا انسان ٹیکنالوجی کے گھوڑے پہ سوار بگٹٹ بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ خلا کی سیر کے بعد مغرب نے سُپر مین، بیٹ مین اور اسپائیڈر مین جیسے کردار تخلیق کیے، جو نا ممکن کو بھی ممکن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کردار اپنی انتہائی غیر معمولی طاقت انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ابتدا میں یہ کردار بچّوں کی تصاویر میں نظر آتے تھے، لیکن پھر ناولز اور فلمز میں ڈھل گئے اور مغربی دُنیا کے لیے غیر معمولی طاقت کی علامت بن گئے۔ ان کرداروں سے نوجوانوں میں اس سوچ نے جنم لیا کہ وہ اپنی عقل سے نا ممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں اور پھر انہی کرداروں سے ’’سُپر پاور‘‘ کا لفظ برآمد ہوا۔ یعنی ایک ایسی طاقت، جسے کوئی نہ جھکا سکے۔ پھر ذرایع ابلاغ کے ذریعے ان غیر معمولی صفات کے حامل کرداروں کو پوری دُنیا میں پہنچایا گیا۔
اس وقت امریکا سمیت دُنیا کے دیگر ترقّی یافتہ ممالک اپنے طلبہ کے جذبۂ تخلیق و تعمیر کو اس انداز سے آگے بڑھا رہے ہیں کہ کل کی تصوّراتی دُنیا آج حقیقی دُنیا بنتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام شعبۂ ہائے زندگی میں ہونے والی ایجادات ہی حیرت انگیز ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی جادوگر کے منتر پھونکنے سے وجود میں آئی ہوں۔ یاد رہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے خلاف چاہے کتنے ہی محاذ کیوں نہ قائم کر لیں، اس سے مفر ممکن نہیں اور اگر ہم نے اس سے راہِ فرار اختیار کی، تو یہ اپنی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان قرض پر گندم لیتا تھا اور دیگر ممالک سے گندم سے بھرے جہازوں کے جہاز پاکستان آتے تھے۔ پھر ڈاکٹر نورمن بورلاگ نامی ایک امریکی سائنس دان نے فیصل آباد کے ایگری کلچر ریسرچ سینٹر میں گندم کی ایک ایسی قسم دریافت کی کہ جس سے اس کی فی ایکڑ پیداوار 10گُنا بڑھ گئی اور اس نے پاکستان میں ’’سبز انقلاب‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آج امریکی سائنس دان کی اس ایجاد کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ دُنیا کے اکثر ممالک گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہوچکے ہیں۔
بعد ازاں، ڈاکٹر نورمن بورلاگ کو اپنی اس ایجاد پر نوبیل پیس پرائز بھی ملا۔ یاد رہے کہ ایسے تخلیق کار کسی ایک قوم کے محسن نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی فلاح کا سبب بنتے ہیں اور ہمیں ان کا شُکر گزار ہونا چاہیے۔ آج سے 300برس قبل لکھے گئے جی ایچ ویلز کے ’’Foods Of The Gods‘‘ نامی سائنس فکشن ناول میں ایسے ہی کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا سائنس فکشن ناولز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اقوام ترقّی کی راہ پر گام زن ہوتی ہیں، تو ان کے تخلیقی ادب میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ اپنے ماضی کا تذکرہ کرنا غیر مناسب نہیں اور پھر ویسے بھی اپنی عظمتِ رفتہ سے وابستگی جوش و جذبہ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، لیکن اگر اسی کے ساتھ ہی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیتوں کو مہمیز مل جائے، تو پھر ارض و سماں کی وہ حقیقتیں بھی نظر آنے لگتی ہیں کہ جو قدرت نے انسان کے لیے مخفی کر رکھی ہیں اور ان تک رسائی پر پابندی عاید نہیں۔ ہم نے چند مثالوں کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ جب اقوام ترقّی کرتی ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہو گا کہ جب انسانیت ترقّی کی جانب گام زن ہوتی ہے، تو تخلیقی سوچ میں کس طرح تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
چاہے سائنس فکشن بہت سے ادبی ناقدین کی نظر میں بڑا ادب نہ ہو اور محض دل بہلانے کا ذریعہ ہو، لیکن جب یہی افسانے اور مَن گھڑت قصّے حقیقت بن جائیں اور پوری انسانیت پر اثر انداز ہونے لگیں، تو پھر انہیں کیا کہا جائے گا۔ نیز، ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ جب سائنس فکشن حقیقت کا رُوپ دھارتا ہے، تو ہماری سوچ اسے قبول کرنے سے بھی قاصر ہوتی ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی تک ہمارے بعض طبقات انسان کے چاند پر اُترنے کو حقیقت کی بہ جائے ہالی وُڈ کی سائنس فکشن مووی کا کوئی منظر قرار دیتے ہیں اور اُن کی اس رائے کو کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ خود فریبی ہے، جو ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان سے مزید دُور لے جائے گی۔
ہم اپنے بچّوں کو ملّی نغموں سے بہلا رہے ہیں، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں میٹرک کے طلبہ لیبارٹریز میں ایٹم بم تیار کرتے ہیں۔ کارل ساگن سائنسی کہانیاں لکھنے والے عظیم قلم کار ہیں۔ انہوں نے متعدد سائنس فکشن ناولز تحریر کیے ہیں اور ایک عالم ان کی سوچ کا معترف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک فلسفی رہنما کا نام دیا گیا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے کہ ایک نئی پراڈکٹ چند روز ہی میں پرانی ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نئی پراڈکٹ لے لیتی ہے۔
یعنی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی رفتار ہمارے وہم و گمان سے بھی زیادہ ہے۔ اس موقعے پر سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ ہوش رُبا سائنسی ترقّی میں ہمارا کتنا کردار ہے؟ ہمارے سائنس فکشن رائٹرز کہاں ہے؟ نیز، کیا ہمارا نوجوان ہمیشہ دوسروں ہی سے تحریک پاتا رہے گا یا صرف اپنا ماضی دُہرا کر خوش ہوتا رہے گا، جب کہ اس کے برعکس ترقّی یافتہ اقوام نِت نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔