• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی محقق ’’انّا سووو رودا‘‘، پاکستان، مذہب اسلام اور مرشدوں کے بارے میں تحقیق جتنی انّا نے کی ہے اتنی ہمارے کسی پاکستانی نے بھی نہیں کی ہوگی۔ تازہ کتاب جنوبی ایشیا کی ان خواتین کے حوالے سے ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاست کے اس عروج پر پہنچیں کہ سربراہِ ریاست بنیں۔ گفتگو اور تحریر بیگم لیاقت علی خان سے شروع کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ روس کا دعوت نامہ چھوڑ کر امریکہ کے دورے کا دعوت نامہ حاصل کیا گیا تھا۔ تب بیگم لیاقت نہ صرف خاتون اول تھیں بلکہ بہت گریس فل تھیں، ان کے اس دورے کے لئے بیگم دولتانہ کی نگرانی میں بہت دلفریب غرارے بنوائے گئے تھے، ان کے لباس کو دیکھ کر امریکی خواتین آنکھیں پھاڑے کھڑی رہتی تھیں۔ انہوں نے نیشنل گارڈ اور اپوا کے ادارے بنائے۔

اپوا اب تک ڈپٹی کمشنروں کی بیویوں کے باعث چل رہا ہے مگر اپوا کا کالج بھی ہے۔ مجھے اس کے بعد بیگم لیاقت علی خان کا وہ سوجا ہوا چہرہ یاد ہے کہ جب لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا تھا اور بیگم لیاقت علی خان کی آنکھیں رو رو کر ایسی ہو گئیں کہ دیکھی نہیں جا سکتی تھیں۔ یہ میرے بچپن کا زمانہ تھا۔

انّا نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی یاد کیا۔ مجھے اپنی جوانی یاد آئی کہ جب موچی دروازے کے باہر باغ میں جلسے ہوتے تھے۔ ہر جلسے سے محترمہ فاطمہ خطاب کرتی تھیں کہ وہ آمر ایوب کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہی تھیں۔ ان کی تقریر سے پہلے حبیب جالب نظم پڑھتا تھا۔ ایک نظم یاد ہے ’’بیس روپے من آٹا، اس پر بھی ہے سناٹا‘‘

صدر ایوب زندہ باد۔ جالب کے اور محترمہ کی تقریر کے دوران سناٹا ہوتا تھا اور لوگ کھڑے کھڑے اتنی عقیدت سے ان دونوں کو سنتے تھے کہ مجھے آج بھی وہ منظر زندہ محسوس ہو رہا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مولانا مودودی نے بھی محترمہ فاطمہ کی حمایت کی تھی۔ وہ قائداعظم کی وفات کے بعد ہر 11ستمبر کو تقریر بھی کیا کرتی تھیں۔ جن میں موجود سیاسی اور معاشرتی خرابیوں کو بالخصوص اجاگر کیا کرتی تھیں۔ سرکار چونکہ ایوب کی تھی، اس نے محترمہ فاطمہ کو اس طرح ہروا دیا تھا جیسا آج کے پاکستان میں بھی ہوتا ہے۔ اور پھر ریڈیو پر بھی سرکار جب ان کی تقریر کا کچھ حصہ حذف کرنے لگی تو پھر محترمہ فاطمہ نے کہا کہ میں براہ راست قوم سے خطاب کروں گی۔ یہ سارے مرحلے چلتے رہے اور ایک دن خبر آئی کہ وہ انتقال کر گئی ہیں۔ ساتھ ہی دنیا بھر میں یہ افواہ بھی پھیلی کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کی آواز بند کر دی گئی ہے۔ وجہ یہ بتائی جاری تھی کہ ان کے سر ہانے پر خون کے دھبے تھے۔

اب انّا اپنی کتاب میں اندرا گاندھی کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ان کی سیاست اور سنجے کی حرکتوں پر وہ بھی نکتہ چیں ہیں۔ وہ ایمرجنسی کے خلاف بھی لکھتی ہیں۔ مگر میں نے سب لوگوں کو بتایا کہ مجھے اندرا جی جب اچھی لگیں، جب میں ریشماں اور اس کے گروپ کو اندرا جی کی فرمائش پر دہلی لے کے گئی تو اندرا گاندھی نے دروازے ہی پر استقبال کیا اور ریشماں کو کوئی دو گھنٹے تک زمین پر بیٹھ کر سنا، بہت سے تحائف دیئے۔ انّا یہ بھی لکھتی ہیں کہ انڈیا میں سب سے طویل حکمرانی اندرا جی نے کی۔ انّا نے گولڈن ٹیمپل حملے پر بھی تنقید کی ہے اور مشرقی پاکستان میں فوجیں بھجوانے کے فیصلے پر بھی معترض ہوئی ہیں۔

اب ذکر کرتی ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت کا۔ انّا پہلے بھی بے نظیر کی شخصیت پر ایک کتاب لکھ چکی تھیں۔ اس کتاب میں بے نظیر کی ضیا کے دور میں قید و بند کی صعوبتوں اور جس طرح ان کو دو دفعہ وزارت عظمیٰ دی گئی اور چھینی گئی، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ بی بی کی شادی کی بات بھی کرتی ہیں۔ بی بی نے انہیں بتایا کہ جن حالات میں وہ تھیں، یہ مجبوری کی شادی انہیں کرنا پڑی۔ مجھے بھٹو صاحب کی زندگی کا وہ دن یاد ہے جب آخری دن انہوں نے بے نظیر کو ساتھ لٹا کر ان کے کان میں بہت سی باتیں کی تھیں۔ مگر بے نظیر کو وقت ہی نہیں دیا گیا۔ جن دشمنوں نے بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھایا انہوں نے بی بی کو بھی گولی سے خاموش کر دیا۔

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا، دونوں پر ایک ایک باب ہے مگر مجھے تو وہ حسینہ یاد ہے جو مجھے دھان منڈی کے گھر میں وہ سیڑھیاں دکھانے کو لے گئی تھی جہاں شیخ مجیب سمیت پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اب ان کی پالیسیوں پر انّا نے کافی سخت لہجے میں بات کی ہے۔ اس طرح خالدہ ضیا کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان دونوں خواتین کے باپ اور شوہر کے قتل کئے جانے کے بعد گویا وراثت میں وزارتِ عظمیٰ ملی۔

یہی بات وہ سری لنکا کی پہلی خاتون وزیراعظم بندرا نائیکے اور ان کے بعد ان کی بیٹی کو بھی وزارت ملنے کے بارے میں کرتی ہیں۔ مختصراً وہ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ جیسے رضیہ سلطان، رانی جھانسی اور دیگر خواتین وراثتاً وزیراعظم بنیں، یہ خواتین بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین