• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ہفتے ایک اور جریدہ بند ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ادبی رسائل ہمارے معاشرے میں بالکل وہی کردار ادا کرتے آ رہے ہیں جو کسی شہر میں باغات کرتے ہیں۔ جن میں شہر سانس لیتے ہیں۔ اُردو اور پنجابی کے صحافی شاعر تنویر ظہور نے 43سال سے جاری ماہنامہ ’سانجھاں‘ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وجہ ہرچند انہوں نے اپنی صحت بتائی ہے لیکن اصل سبب تو وہی ہے۔ مالی حالت۔ معاشرے کو شاید سانس لینے کی اتنی ضرورت نہیں جتنی پیٹ اور تجوری بھرنے کی۔ ادبی رسائل تہذیب اور تمدّن کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ ان کی فراوانی ہو تو ماحول میں تحمّل اور برداشت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے جریدے آخری سانسیں لے چکے ہیں۔ صہبا لکھنوی کا انتہائی موقر ’افکار‘، فہیم اعظمی کا ’صریر‘۔

میری نسل کے لوگوں نے تو جب ہوش سنبھالا تو اپنے اردگرد ادب لطیف دیکھا۔ نیرنگ خیال کو پایا۔ بیسویں صدی ’شمع‘، ’نئی قدریں’، ’ادبی دنیا‘ کو حرف و خیال کی پرورش کرتے پایا۔ ہم نے انہیں پڑھ کے حرف کی انگلی تھامنا سمجھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ’ادب لطیف‘ اب بھی جاری ہے۔ ناصر زیدی پھر سے ادارت کر رہے ہیں۔ صدیقہ بیگم کی بھی ہمت ہے کہ اس غیر منفعت بخش سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماہنامہ ’تخلیق‘ ادیب صحافی شاعر اظہر جاوید کی یادگار ہے جسے سونان اظہر نے اور زیادہ خوبصورت بنادیا ہے۔

بچپن ’تعلیم و تربیت‘ ’کھلونا‘ جنگ گروپ کے ’بھائی جان‘ ’بچوں کی دنیا‘ کی گود میں گزرتا تھا۔ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کا ’لیل و نہار‘ یاد آتا ہے۔ جس کا 1857کی صد سالہ سالگرہ پر بہت ہی یادگار نمبر شائع ہوا تھا۔

میں آج ان جرائد کی یاد میں اس لئے کھویا ہوا ہوں کہ آج کی اسمارٹ فون کی دلدادہ، انٹرنیٹ کی محبوب نسل کو بتا سکوں کہ پہلے خیال و خواب کس طرح ذہن میں منتقل ہوتے تھے۔ اب تو گوگل مختلف دنیائوں کی سیر کرواتا ہے۔ یہ کھیل کروڑوں ڈالرز کا ہے۔ اس میں کوئی ترتیب نہیں ہے، نہ ہی تصدیق ہے۔ آپ کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ آپ کی پسندیدہ تحریریں آپ کے بارے میں کیا کیا اطلاعات دوسروں کو دے رہی ہیں۔ آپ جن الفاظ، اصطلاحات پر نظر جماتے ہیں ان کے ذریعے آپ کی شخصیت کے کیا کیا پرت گوگل کے پاس نقش ہو رہے ہیں۔ آپ کی ذات چوری ہو رہی ہے۔ آپ محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن جب ادبی مسائل کے اوراق آپ کی تفریح طبع کرتے تھے تو آپ کا وجود آپ تک ہی محدود رہتا تھا۔

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے

لیکن آج کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی تو آپ کے وجود کے مرکز تک پہنچتی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے اسرار سے اتنے واقف نہیں ہیں اس لئے ابھی ہم ٹیکنالوجی کو استعمال نہیں کر رہے، ٹیکنالوجی ہمیں استعمال کر رہی ہے۔ نوجوان، بزرگ، برقی میڈیا، سرکاری دفاتر سب ٹیکنالوجی کے یرغمال ہیں۔ ہم خود تحقیق اور تخلیق کے عادی نہیں ہیں۔ ٹیکنالوجی نہ ہم نے ایجاد کی ہے نہ ہی اس کے مضمرات پر ہمیں عبور حاصل ہے اور نہ ہی ہم اپنی نئی نسل کو وہ تحریریں اور وہ افکار اس ٹیکنالوجی کے ذریعے فراہم کر رہے ہیں جن کی بنا پر ان کا رشتہ اپنے آبائو اجداد سے استوارر ہے۔

مولانا صلاح الدین احمد کا ’ادبی دنیا‘، نذیر چوہدری کا ’سویرا‘، حنیف رامے کا ’نصرت‘، احمد ندیم قاسمی کا ’فنون‘، جون ایلیا کا انشا (عالمی ڈائجسٹ)، شورش کاشمیری کا ’چٹان‘، م ش (محمد شفیع) کا ’اقدام‘، شیر محمد اختر کا ’قندیل‘، نعیم صدیقی کا سیارہ، اختر انصاری اکبر آبادی کا ’نئی قدریں‘۔ سب نے 50، 60اور 70کی دہائیوں میں کتنی نسلوں کے ذہن سیراب کئے۔ ’چٹان‘ اور ’ایشیا‘ کی لفظی لڑائی مجھے یاد ہے۔ نثر اور نظم میں ہر ہفتے ایک دوسرے پر حملے ہوتے۔ لیکن شام میں لکشمی چوک لاہور میں کنگ سرکل میں اکٹھے چائے پی جاتی۔ اُردو ڈائجسٹ کا اپنا ایک کردار ہے۔ اب تو دائیں بائیں کی کشمکش نہیں ہے لیکن 70کی دہائی میں اس نظریاتی تصادم نے بہت اچھے ادب اور تحریروں کو جنم دیا۔ عطاء الحق قاسمی کا ’معاصر‘ اب باقاعدہ نہیں ہے۔ اس نے بھی بہت سی نئی تخلیقات متعارف کروائیں۔ سرگودھا سے ’کامران‘ ایک عرصے تک ادبی افق پر چھایا رہا۔ تاج سعید نے مردان شوگر ملز سے ’قند‘ شروع کیا۔ ان دنوں شوگر ملز ادب کی سرپرستی میں شیرینی محسوس کرتی تھیں۔ آج کل شوگر ملز بے نامی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ ممتاز شیخ اولڈ راوین ایسوسی ایشن کی طرف سے بڑا ضخیم ’لوح‘ باقاعدگی سے شائع کر رہے ہیں۔ گلزار جاوید، ضمیر جعفری مرحوم کے ورثے ’چہار سو‘ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی قیمت ہے نہ اس میں اشتہار۔ باقاعدگی سے پوری دنیا میں ڈاک سے بھیجا جاتا ہے۔ نسیم درانی کا ’سیپ‘ 50سال سے زیادہ کا ہو گیا ہے۔ لاہور سے ماہنامہ ’بیاض‘، ’الحمرا‘ شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ سندھی میں بہت اہم رسالے شائع ہو رہے ہیں۔ بلوچی میں بھی۔ مری سے ’دستک‘ دولتالہ سے ’صبح بہاراں‘، سہ ماہی ’تسطیر‘ بھی نظر سے گزرتے ہیں۔ کسی زمانے میں یونیورسٹیوں کے میگزین بھی تہذب و تمدن کی بقا میں اپنا حصّہ ڈالتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کا ’محور‘، کراچی کا ’جریدہ‘۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا ’راوی‘۔ سرکاری پرچوں میں ادبیات اور ماہِ نو بھی لائق ذکر ہیں۔ ’ماہِ نو‘ کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ جبکہ فوجیوں کا ’ہلال‘ پہلے سے بہت معیاری اور ہم جہت ہوگیا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو چاہئے کہ وہ تہذیب و تمدن کے سانس لینے کو آسان بنائے۔ اسے بھی اپنی سماجی ذمہ داری خیال کرے۔ ادبی رسائل کی بقا میں اپنا کردار ادا کرے۔

تازہ ترین