• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناروے کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مؤقف واضح کرے، اراکین پارلیمنٹ

ناروے کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے ملک کی وزیر خارجہ مس اینے ایم۔ ایرکسن سوریدے سے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ گھمبیرصورتحال پر اپنا مؤقف واضح کریں۔

ان اراکین پارلیمنٹ کا تعلق ناروے کے حکمران اتحاد میں شامل جماعت کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی، اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت لیبرپارٹی اور بائیں بازو کی ایس وے پارٹی سے ہے۔

کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ کنوت ارید ھارایدے جو پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کے چیئرمین بھی ہیں، نے نارویجن وزیر خارجہ کو ایک تحریری سوال میں کہا ہے کہ جب سے بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس خطے کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان دونوں علاقوں وادی اور لداخ کو مرکزی حکومت کے تحت قرار دیا ہے،  کشمیری عوام اس صورتحال پر سراپا احتجاج ہیں۔

تحریر میں کہاگیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ علاقے میں فوج کی نفری بڑھا دی ہے،  سیاسی و سماجی شخصیات کو گرفتار کرلیا، دوہزار کے قریب اہم لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے یا انہیں نظربند کردیا گیا ہے، فون لائنز اور انٹرنیٹ منقطع کردیا ہے اور عام سرگرمیوں اور نقل و حرکت کو محدود کرکے شہریوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

رکن پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وزیرخارجہ اپنا مؤقف واضح کریں اور یہ بھی بتائیں کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں سویلین رائٹس کے تحفظ اور سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے اور امن عمل بحال کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

اسی طرح کا تحریری سوال ایک اور رکن پارلیمنٹ پیٹر ایدے جن کا تعلق بائیں بازو کی سوشلسٹ لفٹ پارٹی (ایس وے) سے ہے، نے بھی وزیرخارجہ کو ارسال کیا ہے۔

رکن پارلیمنٹ کی تحریر میں کہاگیا ہے کہ جب سے بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے، بھارت کے زیرانتظام یہ خطہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس آرہی ہیں اور دو جوہری ملکوں بھارت اور پاکستان کے مابین بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

خط میں انہوں نے ماضی میں امن کے لیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ناروے کے کردار کا بھی حوالہ دیا ہے۔

ایک اور خط ناروے کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبرپارٹی کے رکن اسمبلی جان بوھلر نے لکھا ہے جس میں سوال کیا گیا ہے کہ ناروے نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی ایمرجنسی کے نفاذ پر احتجاج کے لیے اب تک کیا کیا ہے اور مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ اس رکن پارلیمنٹ نے ماضی میں ناروے کے کردار کو سراہتے ہوئے کہاکہ ناروے کا امن کے عمل میں اہم کردار رہا ہے۔

ادھر ناروے کی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور کہنہ مشق نارویجن پاکستانی سیاستدان چوہدری خالد محمود نے مختلف نارویجن جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سوال اٹھائے جانے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔

ان کا کہناہے کہ ناروے کی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی گھمبیر صورتحال کو سامنے لانے سے اس مسئلے کو سمجھنے میں مزید مدد ملے گی۔

انہوں نے ناروے کے اہم حلقوں میں مسئلہ کشمیر خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو اجاگر کرنے میں کشمیرسکینڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی شاہنوازخان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ کشمیرسکینڈے نیوین کونسل طویل عرصے سے مسئلہ کشمیر پر کام کررہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ 3ماہ کے دوران ناروے میں مقبوضہ کشمیرکی موجودہ صورتحال پر مختلف کشمیری، پاکستانی اور نارویجن سماجی تنظیموں کی طرف سے متعدد مباحثے، سیمینار اور اجتماعات منعقد ہوچکے ہیں۔

تین بڑے احتجاجی مظاہرے نارویجن پارلیمنٹ کے سامنے ہوئے جبکہ ایک بڑا مظاہرہ بھارتی سفارتخانے کے باہر کیا گیا۔ ان کے علاوہ بعض شخصیات کی طرف سے سفارتی سطح پر ملاقاتوں اور مذاکروں کو سلسلہ بھی جاری ہے۔

تازہ ترین