• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لاڑکانہ میں پرانی پیپلز پارٹی نے نئی پیپلز پارٹی کو ہرا دیا

جے یو آئی کا آزادی مارچ اسلام آباد میں داخل ہوچکا سیاست میں تمام امکانات موجود رہتے ہیں اور موجودہ حالات میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ پتہ نہیں چل رہا پل پل مذاکرات، پس پردہ مذاکرات، رات کے اندھیروں میں مذاکرات، غیرملکیوں کا عمل دخل، بیک ڈور رابطے ، اس کی تھپکی اس کی تھپکی، ان تمام عوامل نے تجزیہ کاروں کے سامنے سیاسی دھند پیدا کردی ہے جس میں صاف صاف نہیں دیکھا جاسکتا اور نا ہی اندازے کئے جاسکتے ہیں ایک ہفتہ قبل حکومت کی گھن گرج جاری تھی کہ مارچ کو پنجاب میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا وزیراعلیٰ کے پی کے، شوکت یوسف زئی، فیصل واڈا، علی امین گنڈاپور، فردوس عاشق اعوان ، شیخ رشید بلند وبانگ دعویٰ کررہے تھے کہ مارچ نہیں ہوگا دوسری جانب جے یو آئی کے رہنما مولانا عطاء الرحمن، اکرم درانی، علامہ راشدسومرو فرمارہے تھے کہ استعفیٰ کے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے، کنٹینروں کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ 

دھرناڈی چوک ہی میں دیں گےتاہم دونوں فریقین اپنے اپنے بیانیہ پر قائم نہیں رہ سکے مذاکرات بھی ہوئے جگہ بھی تبدیل ہوئی مولانافضل الرحمن نے آزادی مارچ شروع کرکے جو سیاسی بلندی حاصل کی تھی اور ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو مسافروں کی سیٹ پر بیٹھاکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی وہ کسی مصلحت کا شکار ہوئی یا پھر یہ سیاسی مصلحت ہے۔کیا مولانافضل الرحمن مارچ کے اختتام تک اسی سیاسی بلندی پر رہتے ہیں انہیں حکومتی فریقین کے ساتھ ساتھ دوستوں کی جانب سے بھی چیلنج درپیش ہے جو انہیں اس مقام پر مستقل براجمان نہیں دیکھ سکتے اس میں ان دوستوں کی سیاسی موت ہے مولانا کی حکمت عملی کیا ہے ؟ماضی میں عمران خان اورطاہرالقادری بھی ریڈزون میں ناآنے کا معاہدہ کرکے ریڈزون میں داخل ہوئے تھے مولانا کی کیا یہی حکمت عملی تو نہیں گرچہ مولاناوزیراعظم کے استعفیٰ کے بیانیہ پرقائم ہے۔ 

تاہم ان تمام خدشات، افواہوں،چہ میگوئیوں میں مارچ کا آغاز انتہائی شاندار طریقہ سے ہوا کہاجاسکتا ہے کہ اوپنگ بیسٹمینوں نے مارچ کو سورنزکا اسٹاف فراہم کردیا ، قیاس یہی تھا کہ مارچ جہاں جہاں سے گزرے گا اپوزیشن جماعتوں کے مقامی رہنما وہاں وہاں سے مارچ میں شریک ہوں گے تاہم شہبازشریف کے بیان نے ابہام پیدا کردیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی آزادی مارچ میں شرکت ٹوکن شرکت ہے بعض مبصرین کے مطابق اگر پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) نے مارچ میں ساتھ نا دیا تو یہ دونوں سیاسی جماعتیں قصہ پارینہ بن جائیں گے خود جے یو آئی کے رہنماراشد سومرو کا کہنا ہے کہ ان کا سوفیصد انحصار اپنے کارکنوں پر ہے آزادی مارچ کا آغازکا مقام کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا اگر مولانافضل الرحمن خود کراچی سے قیادت نا کرتے تو شرکاء کی تعداد آدھی ہوتی جسے مخالف فریق مارچ کی ناکامی سے تعبیرکرکے اپوزیشن کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کرتی تاہم مارچ کا آغاز ہی انتہائی شاندار ہوا۔ 

سہراب گوٹھ سپرہائی وے پر قافلے کو رخصت کرنے کے لیے شہر بھر سے لوگ امڈآئے۔ آزادی مارچ میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ(ن)، پاکستان نیشنل پارٹی، اے این پی، پشتونخواہ ملی پارٹی، جے یو پی، نیشنل پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمااور کارکنوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ اس موقع پر سپرہائی وے کا علاقہ نعرہ تکبیراللہ اکبر اور دیگر نعروں سے گونجتارہا۔ پولیس اور رینجرز کے علاوہ جے یو آئی، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے رضاکاربڑی تعداد حفاظتی حصار بنائے ہوئے تھے۔ قافلے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ وہ کم از کم 10 روزہ دھرنے کا بندوبست کرکے آئے ہیں۔ اتنے بڑے مجمعے کے باوجود شرکاء میں خاص نظم وضبط پایا جایاتھا۔

اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے خطاب کے بعد روانگی سے قبل مولانافضل الرحمن نے خطاب کیا اور کہاکہ حکومتی مذاکراتی ٹیم ان سے این آر او مانگنے آئی تھی۔ تاہم اسے واپس کردیا اورعمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ اگلا اعلان اسلام آباد میں کیا جائے گا۔ کراچی سے روانگی سے قبل خصوصی دعائیں کی گئیں۔ قافلے میں ایک سو سے زائد بڑی بسیں۔

ایک سو سے زائد ہی مزدا، کوچز، کوسٹرز اور ہائی ایس تھیں۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں جیپیں، کاریں اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں بھی ہزاروں کارکنان سوار تھے۔ سکھر میں سترہزار افراد کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔سکھر سےبلوچستان کے چھ اضلاع کے قافلوں کے علاوہ سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، گھوٹکی، نواب شاہ، خیرپور کے قافلے بھی ریلی میں شریک ہوں گےدیکھنا یہ ہے کہ پنجاب سے کتنے سیاسی کارکن مارچ کی ہمراہی کرتے ہیں کہاجارہا ہے کہ مارچ کے اصل اغراض ومقاصد اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان لاہور سے روانگی کے وقت کیا جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ مارچ کا اختتام بھی آغاز کی طرح شاندار ہوتا ہے یا پھر مارچ مصلحت اور دباؤ کا شکار ہوتا ہے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ آئندہ کی سیاست میں سندھ میں پی پی پی کو جے یو آئی ٹف ٹائم دے گی جی ڈے اے صرف نام کا اتحاد رہ گیا ہے لاڑکانہ کی سیٹ جتوانے میں جے یو آئی کے ووٹرز کا بڑا کردار تھا جبکہ اسی جے یو آئی نے گھوٹکی کی سیٹ پر پی پی پی کی حمایت کی تو پی پی پی گھوٹکی سے قومی اسمبلی کی نشست جیت کر لے گئی یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پی پی پی کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مدمقابل ابھی تک سندھ میں حقیقی اپوزیشن نہیں آئی جی ڈی اے فنکشنل لیگ کے گرد گھومتی ہے جو چند اضلاع تک محدود ہے پھر ان کی قیادت سیاست کے ایک محدود دائرے تک رہتی ہے کہاجاتا ہے کہ جب تک سندھ میں اپوزیشن کی قیادت فنکشنل لیگ کے پاس رہے گی پی پی پی کو سندھ میں کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

جہاں تک لاڑکانہ میں پیپلزپارٹی کے ہارنے کا تعلق ہے تو معظم عباسی کے خاندان کی پیپلزپارٹی سے پرانی وابستگی رہی ہے۔ ان کی دادی اشرف عباسی بھٹو دور میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی رہیں، بھٹو کے خاص مشورہ دینے والوں میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا جبکہ ناہید خان اور صفدر عباسی بھی شہید بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے یوں کہا جا سکتا ہے کہ پرانی پیپلزپارٹی نے نئی پیپلزپارٹی کو شکست دے دی۔ واضح رہے کہ معظم عباسی نے اپنے انتخابی پوسٹروں پر بے نظیر بھٹو کی تصویر بھی لگائی تھی۔

ادھر بلاول بھٹو گرچہ مارچ کی ہمراہی نہیں کررہے تاہم اس دوران وہ سکھر، کندھ کوٹ، لاڑکانہ، کشمور، اسلام کوٹ میں حکومت پر خوب گرجے برسے انہوں نے عوامی اجتماعات میں کہا کہ لاڑکانہ ضمنی انتخاب میں جمہوریت کو شکست ہوئی لاڑکانہ میں سلیکشن ہوا تھا آزادی مارچ میں پارٹی " عہدیدار" مولانا کے ساتھ ہوں گے سلیکٹڈ حکومت جلد گھر جائے گی نئے الیکشن ہوں گے پی پی پی کی حکومت بنے گی۔ملک میں کٹھ پتلی راج ہے جلد عوامی حکومت بنے گی عدالت، پارلیمانی میڈیا سب ریموٹ کنٹرول پہ چل رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ عمران خان کا نیا پاکستان ایک بھیانک خواب ثابت ہورہا ہے۔ 

آنے والے دنوں میں ملک کے حالات بہت خوفناک دیکھ رہاہوں، اس نالائق اور نااہل وزیراعظم کو استعفیٰ دے کر گھر جانا ہوگا۔ کندھ کوٹ میں جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو نے حکومت سے سوال کیا کہ کہاں گئیں ایک کروڑنوکریاں؟ کہاں گئے پچاس لاکھ گھر؟ زرداری اورنواز کوکچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگی ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین