• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تنازع کشمیر پر بیرونی سہولت کاری کا امکان محدود ہے، ناروے

ناروے کی وزیر خارجہ مس اینے ایم۔ ایرکسن سوریدے نے کہاہے کہ جنوبی ایشیائی خطے کی موجودہ صورتحال میں (تنازع کشمیر کے کیس میں بیرونی سہولت کاری) بیرونی کرداروں کی شمولیت کا امکان بہت ہی محدود نظر آرہا ہے۔

یہ بات آج انہوں نے کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ کنوت اریلد ھاریدے کے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایک تحریری سوال کے جواب میں کہی۔

کنوت ھاریدے جو ناروے کی پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کے سربراہ بھی ہیں، نے گذشتہ ہفتے اپنے ایک مکتوب میں وزیر خارجہ سے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر حکومت کا موقف پیش کریں۔

وزیر خارجہ نے جمعہ کے روز اپنے جواب میں پاک بھارت مذاکرات کے عمل میں سہولت دینے کے لیے ناروے کے کردار کے بارے میں کہا کہ یہ اس صورت میں ممکن ہے، جب دونوں فریق اس کی خواہش رکھتے ہوں۔

وزیر خارجہ کے بیان میں ان تمام بھارتی اقدامات کا ذکرکیا گیا ہے، جو جموں و کشمیر کے حوالے سے 5 اگست سے اب تک کئے گئے ہیں،جن میں 5 اگست کو آئین میں ترمیم کرکے شق نمبر 370 کو ختم کرنا اور جموں و کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے کنٹرول میں دینا، لوگوں کو نظر بند کرنا، فون اور انٹرنیٹ منقطع کرنا شامل ہے۔

لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارتی حکام جواز پیش کر رہے ہیں کہ انہوں نے سیکورٹی کے اقدامات بدامنی اور پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے کئے ہیں۔

بھارتی حکومت کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے نارویجن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت نے وضاحت کی ہے کہ کشمیرکی خصوصی حیثیت قوم کی تقسیم کا باعث بن رہی تھی اور ترقی اور خوشحالی کے راستے میں ایک بڑی روکاوٹ تھی۔

نیز یہ خصوصی حیثیت کبھی بھی مستقل نہیں تھی، بھارتی موقف کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شق نمبر 370 کو ختم کرنا بھارت کا ایک داخلی معاملہ ہے جسے وہاں کے آئین کے اندر رہ کر انجام دیا گیا ہے، البتہ اسکا حتمی فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ  کرسکتی ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے نارویجن وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے پرانے موقف کو پیش کیا ان کے بقول، ناروے نے بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت میں واضح طور پر توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔

ان ذمہ داریوں میں پاکستان کے ساتھ تنازع کے حوالے سے جو خطے میں کشیدگی کی ایک اہم وجہ ہے، بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنا بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے نارویجن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ناروے نے دونوں ملکوں پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ مسئلے کا پرامن حل تلاش کریں۔

 کنوت ھاریدے کے علاوہ دو دیگر اراکین  پارلمنٹ  نے بھی اس ہفتے اپنے تحریری سوالات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر وزیر خارجہ کا موقف جاننے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کے سوالا ت کے جوابات ابھی تک نہیں دیئے گئے ہیں۔

ناروے کی وزیر خارجہ کے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے متعلق تازہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کشمیر اسکینڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار علی شاہنوازخان کا کہنا ہے کہ اس کمزور بیان سے ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔

جموں و کشمیر ہرگز بھارت کا داخلی معاملہ نہیں، کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس خطے پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے، ناروے اقوام متحدہ کے کردار پر زور دیتا آیا ہے اور اب ناروے بھارت جیسے ملک کی حوصلہ افزائی اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

اب اگر ناروے کی حکومت اپنے بعض مفادات کے لیے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بھارتی اقدامات پر تنقید نہیں کرتی تو یہ بات انتہائی افسوسناک ہے۔

علی شاہنوازخان جو ناروے میں حریت کانفرنس میر واعظ گروپ سے وابستہ ہیں، نے واضح کیا کہ ہمیں نارویجن وزیر خارجہ کے اس بیان پر اعتراض ہے۔ ناروے دنیا کو امن کا نوبل ایوارڈ دیتا ہے اور اوسلو نے اقوام عالم کے مابین صلح و امن کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کا یہ بیان ناروے کی اقدار اور اصولوں سے متضاد ہے، بقول ان کے، اس کے علاوہ وزیر خارجہ نے ناروے میں غیرملکی پس منظر رکھنے والی کمیونٹی بالخصوص نارویجن کشمیریوں کو بھی مایوس کیا ہے۔

تازہ ترین