• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ ناز

’’ بابا مجھے قصبہ کے اسکول میں داخلہ لینا ہے‘‘۔ عینی نے اپنے بابا کے گھر آتے ہی پھر وہ وہی ضد شروع کردی، اس کے بابا لکڑیاں کاٹتے تھے اور صبح سے شام تک محنت کرتے تھے۔

عینی نے پانچویں کا امتحان اپنے گاؤں کے اسکول سے بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا اور اب وہ گاؤں سے کافی دورواقع ہائی اسکول میں داخلہ لینا چاہتی تھی اس کے بابا جانتے تھے کہ وہاں تک جانے کے لیے تانگے والے کو پیسے دینے ہوں گے، ان کے لیے یہ بہت مشکل کام تھا وہ روزانہ لکڑیاں کاٹ کر شہر جاکر بیچتے تھے ، جس سے گھر کا خرچ بامشکل چلتا تھا، اس وقت بھی وہ پریشان تھے، انہوں نے عینی سے کہا، بیٹی تم گھر کے حالات اچھی طرح جانتی ہو پھر کیوں روز مجھ سے ضد کرتی ہو؟ ان کی بات سن کر عینی رونے لگی یہ دیکھ کر وہ بولے ،’’ اچھا تم میرے ساتھ بڑی حویلی چلنا میں بیگم صاحبہ سے بات کروں گا ، ہوسکتا ہے کہ وہ ہماری کچھ مدد کریں ، شام کو دونوں باپ بیٹی بڑی حویلی پہنچے اور بیگم صاحبہ سے ملے انہیں پورا مسئلہ بتایا تو وہ بولیں ’’ میں تمہاری تعلیم کا سارا خرچہ برادشت کرلوں گی، مگر میری ایک شرط ہے وہ یہ کہ تمہاری بیٹی اسکول سے آکر روز میری حویلی کی صفائی کرے گی اور میرے بچوں کوبھی اسکول کاسارا کام مکمل کروائے گی ،اس کے بعد یہ گھر واپس جایا کرے گی، کیا تمہیں منظور ہے؟‘‘

’’ لیکن بیگم صاحبہ عینی تو خود ابھی بچی ہے یہ سب کام وہ کیسے کرسکے گی؟‘‘ عینی کے بابا نے پریشانی سے کہا۔

’’ توٹھیک ہے تم جاسکتے ہو‘‘ بیگم صاحبہ نے ناگواری سے کہا۔

’’ بابا جان میں سب کر لوں گی ‘‘ عینی نے ان کے سامنے التجا کی توبابا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہامی بھرلی ۔

کل ہی عینی کا اسکول میں داخلہ ہوجائے گا اور اس کے تانگے کابھی انتظام ہوجائے گا بیگم صاحبہ کی بات سن کر وہ دونوں واپس گھر آگئے۔

اب عینی نے اسکول جانا شروع کردیا، وہاں سے واپسی پر وہ حویلی کا سارا کام کرتی، پھر بیگم صاحبہ کے بچوں کو کام کروا کرشام کو گھرلوٹتی۔

اس کی امی ، بابا پریشان ہوجاتے لیکن وہ انہیں تسلی دیتی اور کہتی کہ مجھے یہ سب کرتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

وقت تیزی سے گزرتا گیا، اس نے میڑک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا اس کی پہلی پوزیشن آئی تھی ، جس پر اسے نہ صرف انعامات سے نوازا گیابلکہ شہر کے مشہور کالج میں مفت داخلے کے ساتھ ہاسٹل میں رہنے کابھی بندوبست ہوگیا۔

عینی کی کامیابی پر اس کے والدین چھوٹے ، بہن، بھائی بہت خوش تھے، اس کی انتھک محنت نے اس کے لیے کامیابی کا دروازہ کھول دیاتھا اور اسی طرح برسوں کی محنت کے بعد عینی ڈاکٹر بن گئی اس نے اپنے سب بہن ، بھائیوں کوبھی تعلیم دلوائی اور اپنے گاؤں میں بھی تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں کیں جب ملازمت کا وقت آیا تو عینی نے شہر میں ملازمت کرنے کےبجائے اسی چھوٹے گاؤں کے سرکاری اسپتال کو ترجیح دی اور خوشی خوشی وہاں اپنے فرائض انجام دینے لگی اوراپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کردیا۔

تازہ ترین