• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں اپنے ذاتی کام کےسلسلے میں اسلام آباد آنا ہوا، واپسی جمعرات 31اکتوبر کی شام کو تھی لیکن جب ہم ایئر پورٹ کے لئے نکلنے لگے تو معلوم ہوا کہ ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکیں گے، مجبوراً دو روز رکنا پڑے گا، اس مجبوری سے ہم نے فائدہ اٹھانے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو ہمارے میزبان بھائی نے ہمیں لیجانے کا وعدہ ہی نہیں کیا بلکہ فوری طور پر چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، اتنا ہجوم! اتنے لوگ ابھی تو مولانا کےساتھ آنے والے مارچ کے شرکا کی آمد میں دو تین گھنٹے باقی تھے۔ آنےوالے آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور اردگرد کے شہروں، ضلعوں سے آئے تھے۔ ان کی تعداد بھی بڑی معقول تھی۔ ہم دونوں لوگوں میں گھل مل گئے اور شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی معلومات کے لئے سوال کئے کہ آپ کیوں آئے ہو، آپ کو آنے کا کتنا معاوضہ ملے گا، کتنے دن رکنا ہے، آپ لوگوں کے کیا ارادے ہیں، حکومت کے خلاف یہ مارچ اور دھرنا ہے، یا صرف عمران خان کےخلاف دھرنا ہوگا۔ کئی لوگ جمع ہوکر ہمارے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے پہلا سوال کہ آپ کیوں آئے ہو کا جواب کئی افراد نے مشترکہ دیا، عمران خان کو ہٹانے، حکومت گرانے آئے ہیں۔ دوسرا سوال کیا ارادے ہیں، اس پر ایک صاحب نے جواب دیا کہ بتایا تو ہے عمران خان کو گھر بھیجنے کے لئے آئے ہیں، تیسرے سوال کے جواب میں ایک صاحب نے جواب دیا یہ مارچ اور دھرنا دراصل مہنگائی، بیروزگاری کےخلاف ہے کیونکہ یہ سب آفات عمران خان کے سبب آئی ہیں، اس لئے عمران خان کو جانا ہوگا۔ تبھی سب مسائل حل ہو سکیں گے، چوتھا سوال تھا کتنے دن رکنا ہوگا، جب تک مولانا صاحب حکم دیں گے، اس سے پہلے ایک سوال ہم نے آنے کے معاوضے کا کیا تھا، اس کا جواب تھا ہم مولانا صاحب کے حکم پر بلامعاوضہ آئے ہیں، اگر عمران نیازی نے کوئی گڑبڑ کی تو ہم سب شہادت حاصل ہونے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شہادت ہی ہمارا معاوضہ ہوگی۔ ہم نے کئی اور لوگوں سے بھی بات چیت کی سب کو پُرعزم اور اپنے موقف پر ڈٹے پایا۔ سب ایک ہی زبان بول رہے تھے کہ ملک ہم سے روز روز قربانی نہیں مانگتا، آج اگر وطن نے پکارا ہے تو ہماری حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن کی حفاظت و بقا کے لئے، اپنے ملک کی نظریاتی حدود کی حفاظت کے لئے اپنی خدمات، اپنی جان و مال پیش کریں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے خاکی لباس پہنا ہے، یہی خاکی لباس ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بھی پہنتے ہیں، ہم ایک فیصلہ کرکے نکلے ہیں، اپنا مقصد پورا کرکے رہیں گے۔ اگر دھرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو وہ چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، ہم سب ضرور بیٹھیں گے۔ جب تک مولانا صاحب حکم نہیں کریں گے ہم نہیں ہلیں گے، جب تک فیصلہ نہیں ہوگا کوئی اپنی جگہ سے کہیں نہیں جائےگا۔ ہمارا راستہ کون روک سکتا ہے۔ اسی عرصے میں اسفندیار ولی خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ آن پہنچے، کچھ دیر بعد انہوں نے اپنےحصے کی تقریر کی، اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور رخصت ہوگئے لیکن جاتے جاتے اپنی پارٹی قیادت اور کارکنان کو وہیں چھوڑ گئے۔ اُن کاموقف اپنی جگہ درست تھا کہ اگر کسی بھی وجہ سے تاریخ ایک روز آگے بڑھائی گئی تھی تو اُن کو، اُن کی جماعت کے ذمہ داروں کو مطلع کیوں نہیں کیا گیا۔ دراصل ٹرین حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا اس کے سوگ کی وجہ سے تاریخ تبدیل کی گئی تھی اور یہ سب کچھ لاہور سے نکلنے سے کچھ ہی دیر پہلے مشاورت سے طے کیا گیا تھا جس کی اطلاع بروقت تمام ارکان رہبر کمیٹی کو نہیں دی جا سکی لیکن جب مولانا صاحب کا مارچ جلسہ گاہ پہنچ گیا تو بہت سی غلط فہمیاں دور کر دی گئیں۔ جلسہ شروع ہوا تو سب جماعتوں کے اکابرین نے اپنے اپنے خیالات کا بھرپور انداز میں اظہار کیا سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ عمران خان کو مستعفی ہو جانا چاہئے، جب مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو انھوں نے اپنے دل کی بھڑاس ہی نہیں نکالی بلکہ حکومت کو واضح طور پر دو دن کی مہلت دی کہ وہ ان دو دنوں میں مستعفی ہو جائے۔ مولانا صاحب نے پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا اور منظم اجتماع کرکے تاریخ رقم کر دی ہے، سب سے زیادہ حیرانی اس پر بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کراچی سے اسلام آباد لانے میں کہیں کوئی گڑبڑ کوئی فساد کوئی توڑ پھوڑ کا واقعہ دیکھنے میں سننے میں نہیں آیا، یوں مولانا نے اپنی انتظامی صلاحیت کا بھی لوہا منوایا ہے۔ اب دیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ متحرک قوتیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں، کیا ملک کسی طرح کی سول نافرمانی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس ساری کارروائی کے جواب میں سیاسی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے۔ ایک طرف ملک بھر کی تمام سیاسی قیادت ہے دوسری طرف تحریک انصاف اور ریاستی ادارے، اگر اداروں نے پُرامن احتجاج کے خلاف کارروائی کرنے سے احتیاط برتی تو حکومت کہاں کھڑی ہوگی؟ بات آزادی مارچ کے شرکا کے تحمل و برداشت کی بھی ہے۔ اگر صبر تحمل سے کام لے کر وہ کسی بھی قسم کی کارروائی میں پہل نہ کریں، حکومت جو بڑی بےصبری کا مظاہرہ کر رہی ہے، کو پہل کرنے دیں تاکہ جوابی کارروائی کا جواز مل سکے اور اگر کسی طرح معاملہ مذاکرات سے طے پا جائے جس کا امکان اگرچہ کم ہے، تو بہت اچھا رہے گا۔ اللہ ہماری ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے، آمین!

تازہ ترین