• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیا کی آبادی تقریباً 23 ملین ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ شرحِ پیدائش کے حامل ممالک میں ہوتا ہے۔ زیادہ تر آبادی افریقی ہے، لیکن یورپی اور ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں وہاں آباد ہیں، جن میں بلوچ بھی شامل ہیں۔ یورپی اور ایشیائی باشندے، جو اَب کینیا کے شہری تسلیم کیے جاتے ہیں، اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں۔ افریقی نسل کے 40 کے قریب بڑے قبائل وہاں میں آباد ہیں، جو اپنا الگ تشخّص برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یوں کینیا کو ایک کثیر اللّسانی مُلک کہا جا سکتا ہے۔

مشرقی افریقی ممالک میں بلوچوں کی کُل آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 8 سے 10 ہزارہے۔ مشرقی افریقی ساحل اور کینیا میں رہنے والے بلوچوں کی سب سے بڑی تعداد ممباسا میں ہے، جو تقریباً ڈیڑھ سے دو ہزار کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ بلوچ تنزانیہ کے علاقوں زنجبار، جزیرہ مافیا، ارنگا، عروشہ روجیوہ میں بھی آباد ہیں، جب کہ یوگنڈا، روانڈا، برونڈی زائرے (کانگو ) میں بھی ان کی آبادیاں ہیں، لیکن ان ممالک میں کساد بازاری اور خانہ جنگی کی وجہ سے اب اکثر بلوچ کینیا، خصوصاً ممباسا منتقل ہوچُکے ہیں۔ 17 ویں صدی کے اواخر میں مشرقی افریقا کے ساحل پر آباد مسلمانوں پر پُرتگالیوں کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور وہ اُنھیں زبردستی عیسائی بنانے لگے، تو مظلوم مسلمانوں نے اومان کے سلطان، امام سیف بن سلطان الیروبی کے پاس مدد کے لیے ایک وفد بھیجا، جس نے سلطان کو ظلم و ستم کی الم ناک داستان سُنائی۔ سلطان نے صُورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے میر شہداد نامی ایک بااعتماد ملازم کو خفیہ طور پر متاثرہ علاقے میں بھیجا۔ یہ پست قامت شخص نسلاً بلوچ تھا۔ 

وہ پہلے ملینڈی آیا، پھر ممباسا پہنچا اور پرتگالیوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے لگا۔ پرتگالیوں کو اس کی سرگرمیوں پر شک گزرا، تو اُسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔تاہم، میر شہداد جیل سے بھاگ نکلا اور اومان پہنچ کر سلطان کو ساری روداد سُنائی۔نیز، پرتگالیوں کی فوجی قوّت اور اُن کی کم زوریوں سے بھی آگاہ کیا۔ ان اطلاعات کی روشنی میں سلطان کی فوج نے میر شہداد ہی کی سربراہی میں مشرقی افریقا کے ساحل پر ممباسا کے قلعے( فورٹ جیسس ) کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ ڈھائی سال جاری رہا، جس کے بعد مسلمانوں نے اُس پر قبضہ کرلیا۔ 

یہ 1698 ء کا واقعہ ہے۔ اومان کے سلطان نے میر شہداد کی بہادری اور وفاداری سے متاثر ہوکر اپنی بہن اُس سے بیاہ دی۔ اس کے بعد مختلف جنگی مہمّات کے سلسلے میں بلوچ سپاہی اومان کی فوج کے ساتھ مشرقی افریقا کے ساحل پر آتے رہے اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اومانی بلوچوں کا ایک گیریژن، فورٹ جیسس میں تعیّنات رہا، البتہ وہ مستقل بنیادوں پر مشرقی افریقا کے ساحل پر اُس وقت آباد ہوئے، جب19 ویں صدی کے آخری نصف میں اومان کے بوسعیدی حکم رانوں نے اپنا دارالخلافہ مسقط سے زنجبار منتقل کیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقریباً تین سو سال سے بلوچ وقتاً فوقتاً سلطنتِ اومان کی فوج کے ساتھ افریقا کے ساحل پر سپاہی کی حیثیت سے آتے رہے، لیکن 1875 ء میں اومان کے سلطان کے مشرقی افریقا کے ساحل سے نکل جانے کے بعد اومانی عرب سپاہیوں اور اُن کے خاندانوں کو تو سلطان نے واپس بلا لیا، لیکن اپنی کمان میں شامل بلوچ آرمی کے اہل کاروں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اُن کی واپسی کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا گیا۔ان پیچھے رہ جانے والے بلوچ سپاہیوں کو پہلے انگریزوں نے قلعے سے نکال کر ممباسا شہر میں اُس مقام پر آباد کیا، جہاں اب سر آغاخان اسپتال اور گرلز اسکول ہے۔ پھر اُنہیں رہائش کے لیے ممباسا شہر کے وسط میں ایک بہت بڑی اراضی دی گئی، جہاں اب مکاڈارا اسٹریٹ اور بلوچی اسٹریٹ واقع ہیں۔ 

مشہور ہے کہ جب بلوچوں کو وہاں آباد کرنے کے لیے اراضی مہیا کی گئی، تو اُنہوں نے اسے اپنے مقدّر کا لکھا سمجھا اور کہا’’ مقدرہ رحمان ‘‘یعنی’’ جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے‘‘ یہ لفظ بعد میں بگڑتے بگڑتے’’ مکاڑارا‘‘ ہوگیا۔ یہاں پر اب بھی بلوچوں کی ڈیڑھ دو ہزار کے قریب آبادی ہے، اُن کا کمیونٹی سینٹر اور دو مساجد ہیں۔ شیخ مبارک مسجد اور بلوچی مسجد کا فاصلہ ایک دوسرے سے تین سو میٹر ہے۔ 

یہ دونوں مساجد ممباسا کے مکاڈارا میدان میں واقع ہیں۔شیخ مبارک مسجد، شیخ مبارک مزروئی نے 1850 ء میں بلوچوں کے لیے تعمیر کروائی تھی۔ مزروئی حکم ران خاندان کے چشم و چراغ، شیخ مبارک مزروئی، بلوچ امام مُلّا مُراد سے دوستانہ قربت رکھتے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر، بلوچوں کے بارے میں اُن کے مثبت رویّے کی نشان دہی کرتی ہے۔ بعد میں بلوچ کھیتی باڑی اور بہتر حالاتِ زندگی کی تلاش میں افریقا کے دیگر ممالک کی جانب بھی چلے گئے۔

کینیا اور دیگر افریقی علاقوں میں بلوچوں کی تیسری اور چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ بڑے بوڑھے تو بلوچی جانتے ہیں، لیکن نئی نسل سواحلی اور انگریزی بولتی ہے۔ تاہم، اُن میں ابھی تک اپنی علیٰحدہ شناخت اور بلوچیت کا جذبہ موجود ہے۔ یہاں کے بلوچوں کی تعلیمی حالت بہتر ہے ، وہ طب اور وکالت سمیت تقریباً تمام پروفیشنز میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ بلوچ سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیتے ہیں۔ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے بھی وابستہ ہیں۔ کینیا( ممباسا ) کے بلوچوں کے مقابلے میں یوگنڈا، زائرے اور تنزانیہ کے بلوچوں کی نئی نسل بلوچی زبان بولتی ہے۔ ممباسا میں رہنے والے بلوچ خود کو صرف بلوچ کہتے ہیں۔ 

اگر اُن سے اُن کے قبیلے کا نام پوچھا جائے، تو وہ خود کو’’ قصر قندی‘‘،’’ سر بازی‘‘ اور’’ نیک شہری‘‘ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، جو ایرانی بلوچستان کے شہروں کے نام ہیں۔ دراصل اُن کے آبائو اجداد ان ہی علاقوں سے پہلے اومان اور پھر سلطان کی سپاہ کے ساتھ مشرقی افریقا پہنچے تھے۔ اُن کے عزیز رشتے دار اب بھی ایرانی بلوچستان اور مکران میں موجود ہیں اور اُن کا ایک دوسرے سے رابطہ ہے۔ 

ممباسا میں بلوچوں کے پندرہ بیس گھرانے ایسے بھی ہیں، جن کا تعلق جام نگر، بھارت سے ہے۔ وہ زیادہ تر رِند بلوچ ہیں اور خود کو ایران سے آنے والے بلوچوں سے علیٰحدہ تصوّر کرتے ہیں۔ ممباسا کے بعض بلوچوں کا کہنا ہے کہ وہ سلطنتِ اومان کی سپاہ کے طور پر آئے تھے اور اُن کے آبائو اجداد نے جنگوں میں اپنا خون بہایا، لہٰذا سلطنتِ اومان اُنھیں اپنا شہری تصوّر کرتے ہوئے واپس اومان بلائے۔ ویسے کینیا کے بلوچوں کو وہاں کے مقامی لوگ خود سے الگ تصوّر نہیں کرتے اور حکومت نے بھی اُنہیں اپنے دیگر شہریوں کے برابر حقوق دے رکھے ہیں ۔

کینیا کے بلوچ مقامی سواحلی ثقافت کے زیرِ اثر ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچ مرد جب اومانی سپاہ کے ساتھ افریقا آئے، تو اُن کے ساتھ خواتین نہیں تھیں اور اُنہوں نے مقامی خواتین سے شادیاں کرلیں۔یوں اُن پر سواحلی ثقافت کا رنگ غالب آگیا، لیکن پھر بھی وہ اپنی وضع قطع اور چہرے مُہرے سے مقامی افریقی نسل سے مختلف نظر آتے ہیں۔ بلوچ معاشی طور پر مستحکم ہیں، مگر غیر یقینی مُلکی حالات کے پیشِ نظر اُن کی اکثریت یورپی ممالک میں آباد ہونا چاہتی ہے۔ افریقی بلوچوں کا لباس روایتی ہے۔ مرد پینٹ شرٹ یا اومانی طرز کا لمبا اور کُھلا چغہ پہنتے ہیں، جب کہ عورتیں کُھلی قمیص، شلوار پہنتی ہیں۔ عیدین یا شادی بیاہ کے مواقع پر خواتین روایتی بلوچی لباس پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ 

پردے کا رواج کم ہی ہے اور خواتین زیور بھی برائے نام پہنتی ہیں۔ بس سونے یا چاندی کے ہلکے زیورات مثلاً انگوٹھی،کان میں چھوٹی بالیاں وغیرہ پہن لیتی ہیں۔ شادی بیاہ یا عیدین پر منہدی لگانے کا رواج ہے۔ خواتین میں تعلیم کی شرح اچھی ہے اور بہت سی خواتین بینکنگ اور طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، جب کہ کئی ایک اپنی دُکانیں بھی چلاتی ہیں۔ گوکہ شہروں میں سکونت اختیار کرنے اور سواحلی ثقافت کے زیرِ اثر افریقا کے بلوچوں میں قدیم بلوچی رسم و رواج کے حوالے سے بہت تبدیلی آئی ہے، لیکن اُن میں کسی نہ کسی صُورت روایتی رسم و رواج کا عکس ضرور نظر آتا ہے۔ شادی بیاہ، خوشی و غمی اور عیدین پر وہ شعوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے لباس، نشست و برخاست اور عادات واطوار میں بلوچیت کی جھلک نظر آئے، خصوصاً خواتین میں یہ جذبہ بدرجۂ اتم موجود ہے کہ اُن کی علیٰحدہ شناخت اور پہچان برقرار رہے۔

آدم خور شیر ہر رات کسی مزدور کو اُٹھا لے جاتے

ممباسا کی پاکستان اور بھارت کے عوام کے لیے کئی حوالوں سے اہمیت ہے۔ یہاں کی تعمیرات خصوصاً عمارات میں بالکونی کا استعمال اُسے ایشیاء کے فنِ تعمیر کے قریب لاتا ہے۔ یہاں کے کھانوں میں ایشیائی ذائقہ ہے۔ کئی ایشیائی پھل مثلاً آم کو وہاں متعارف کروانے کا سہرا ایشیائی باشندوں ہی کے سَر ہے۔ اس کے علاوہ، چاول کی کاشت بھی اُنہی نے متعارف کروائی۔ بندرگاہ ہونے کے ناتے ممباسا کی ایک خاص اہمیت رہی ہے۔ اسی لیے انگریزوں نے نو آبادیاتی شکنجے کو اُس وقت تک مضبوط نہ پایا، جب تک ممباسا پر قبضہ نہ کرلیا۔ 

اسی نو آبادیاتی مفاد کے تحت اُنہوں نے ممباسا سے کمپالا ( یوگنڈا کا دارالحکومت) اور اس سے آگے جھیل وکٹوریہ تک ریلوے ٹریک بچھایا۔اُس کی تعمیر کا آغاز 1896 ء میں ہوا اور مکمل ہونے میں 5 سال لگے۔ یہ ریلوے ٹریک 657 میل طویل ہے۔ تعمیر میں ہندوستانی مزدوروں نے حصّہ لیا۔ ٹریک کی تعمیر میں بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ دشوار گزار علاقے، بیماریاں، وحشی قبائل کی مزاحمت، حادثے، جنگلی جانوروں سے خطرات نے اسے ایک پُرخطر مہم بنادیا تھا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ میں ’’ Ghost in the Darkness‘‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنی،جس میں بھارتی اداکار، اوم پوری نے انڈین کارکنان کے سُپر وائزر کا کردار ادا کیا۔ 

یہ فلم دو آدم خور شیروں کی جانب سے ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر میں پیدا کی جانے والی مشکلات کے حوالے سے ہے۔ یہ ریلوے نظام بچھانے کے حوالے سے سب سے دِل چسپ واقعہ، ٹساوو کے مقام پر ریلوے کارکنوں اور دو آدم خور شیروں کے درمیان اعصابی جنگ ہے۔ قصّہ یوں ہے کہ 1898 ء کی ابتدا میں انڈین آرمی کے ایک افسر، کرنل جے ایچ پیٹرسن کو، جسے ریلوے کی تعمیر کا وسیع تجربہ تھا، ممباسا سے یوگنڈا تک ریلوے لائن ( جسے لیونیٹک ایکسپریس کا نام دیا گیا ) تعمیر کرنے کی ذمّے داری سونپی گئی۔ ان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اور چیلنج ٹساوو ندی پر پُل کی تعمیر تھا۔ 

ریلوے لائن کی تعمیر میں وحشی قبائل کی مزاحمت، خطرناک موسمی حالات کے علاوہ جانوروں نے بھی رکاوٹیں ڈالیں۔ آدم خور شیر، جن میں ایک نر اور دوسری مادہ تھی، کارکنوں کے خیموں یا کیمپس میں گھس جاتے اور کسی نہ کسی کو اُٹھا کر لے جاتے۔ اس کی وجہ سے پُل کی تعمیر تو اپنی جگہ، مزدوروں کو سنبھالنا بھی مشکل ہوگیا۔ ان آدم خور شیروں کو مختلف طریقوں سے مارنے کی کوشش کی گئی، لیکن تمام کوششیں بے سود رہیں۔ بڑے اور مخصوص قسم کے ٹریپ بنائے گئے۔ مقامی قبائل کو،جو شیر کے شکار کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے، بھاری معاوضہ دے کربھیجا گیا، لیکن شیروں کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکا۔جس پر مقامی قبائل اور مزدوروں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ دونوں شیر جن، بھوت یا چڑیلیں ہیں، جنہیں مارا نہیں جا سکتا۔

کرنل پیٹرسن کو ریلوے لائن بچھانے کے حوالے سے وقت کی تنگی کا بھرپور احساس تھا، لیکن وہ جانتے تھے کہ ان خوف زدہ مزدوروں کی مدد سے وقتِ مقرّرہ پر کام مکمل نہیں کر پائیں گے، اس لیے اُنہوں نے پہلے اُن آدم خود شیروں کے خاتمے کا ارادہ کیا، لیکن اس کے لیے اُنھیں طویل، تھکادینے والے دس صبر آزما مہینوں کا انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران چوہے، بلی کا کھیل جاری رہا۔ کرنل پیٹرسن کو کئی طویل راتیں درختوں یا اوپر بنی مچانوں میں گزارنی پڑیں، لیکن وہ کام یابی سے دُور ہی رہے اور مزدور کیمپس سے کسی کارکن کے گھسیٹنے، چیخنے کی آوازیں اور شیر کی ہول ناک دھاڑیں سُننے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ کیمپس کے گرد کانٹوں اور جھاڑیوں کی باڑ لگائی گئی، جب کہ اندر ایک بڑا الائو جلایا جاتا تھا۔ ایک شخص کو رات بھر ٹین کا کنستر پیٹتے رہنے کا کام سونپا گیا تاکہ شیر شور و غل اور روشنی دیکھ کر کیمپ سے دور رہیں، لیکن اس تمام اہتمام کے باوجود آدھی رات کو شیر آتے اور کسی نہ کسی مزدور کو گھیسٹ کر لے جاتے۔ 

ایک موقعے پر کرنل پیٹرسن کو مزدوروں کی ہڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔ ممباسا سے جو ٹرین، مزدوروں کے لیے خوراک یا دیگر سامان لے کر آتی تھی، اس میں 500 مزدور بیٹھ کر واپس روانہ ہوگئے۔ اب پیٹرسن کے پاس 50 کے قریب کارکن رہ گئے، جس کے سبب پُل اور ریلوے ٹریک بچھانے کا کام تقریباً رُک گیا۔ اگلے تین ہفتے باقی ماندہ مزدوروں نے اپنے کیمپس آدم خور شیروں سے محفوظ رکھنے کی سعی میں گزارے۔

اس دوران شکاری اور مہم جُو افراد بھی آتے جاتے رہے۔ اُنہوں نے آدم خور شیروں کے شبے میں کئی شیروں کو مار ڈالا، لیکن وہ مار نہ سکے، تو صرف اُن دو شیروں کو جن کی وجہ سے ریلوے کا کام ٹھپ ہوا تھا۔ ایک دن ایک آدم خور شیر کرنل پیٹرسن کے بنائے لکڑی کے ٹریپ میں گھس گیا، خوف زدہ رضا کاروں نے،جنہیں بندوقیں دے کر بٹھایا گیا تھا، اندھا دھند فائرنگ کی، لیکن گولیاں شیر کو لگنے کی بجائے ٹریپ کے تالے کو لگیں، جس سے ٹریپ کُھل گیا اور شیر یہ جا وہ جا۔ ایک دفعہ ایک آدم خور شیر کا کرنل پیٹرسن سے آمنا سامنا ہوا۔ شیر 50 فٹ کے فاصلے پر تھا۔ 

پیٹرسن نے فائر کیا، لیکن بد قسمتی سے نشانہ چُوک گیا، جب کہ دوسرے فائر سے شیر معمولی زخمی ہوا اور فرار ہوگیا۔ آخر کار، دس مہینوں کی تھکادینے والی کاوشوں کے بعد کرنل پیٹرسن کو کام یابی حاصل ہو ہی گئی اور ریلوے ٹریک بچھانے کے کام کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اُن دونوں آدم خور شیروں کے ڈھانچے اب بھی شکاگو، امریکا کے فیلڈ میوزیم میں موجود ہیں۔اس کام یابی پر ہندوستانی مزدوروں نے کرنل پیٹرسن کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی، جس میں اُن کی بہادری کے اعتراف میں اُنہیں چاندی کا ایک برتن دیا گیا۔

تازہ ترین