سب سے پہلے تو آپ سے یہ درخواست کرنا ہے کہ آپ مجھے بتا دیں کہ کیا میں نالائق اور دیوانہ ہوں یا پاکستان کی معیشت کے بارے میں پیشگوئیاں اور تصریحات و توجیہات پیش کرنے والے۔ ویسے میرے اسکولوں کے استاد مجھے سو میں سے تقریباً سو نمبر ہی دیتے رہے ہیں اور شاید آپ کے علم میں بھی ہو کہ میں نے پیٹ پالنے کے لئے معاشیات اور شماریات کا پیشہ اپنائے رکھا ہے۔ مختصراً یہ کہ میرے خیال میں مجھے جمع تفریق کرنے کا تھوڑا سا علم ہے اور اس کے مطابق پاکستان کی حکومت سے لے کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف تک فرضی اور بےبنیاد اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ مزید برآں پچھلے سال کی 3فیصد کی اور اس سال کی 2فیصد کی ترقی کی شرح بھی صرف کہانی ہے: حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت تیزی کے ساتھ سکڑ رہی ہے، یعنی شرح ترقی صفر سے نیچے منفی رخ اختیار کئے ہوئے ہے۔
جان کی امان پاؤں تو سب سے پہلے قومی آمدنی کو طے کرنے کے اس فارمولے کا ذکر کردوں جو معاشیات کی الف ب سے شروع کرنے والوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ قومی آمدنی کا ہندسہ نکالنے کے لئے تصرفات جمع سرمایہ کاری جمع حکومتی اخراجات اور جمع برآمدات اور درآمدات کا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی قومی آمدنی میں اضافے کی وجہ صارفین کی پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ خریداری، سرمایہ کاری میں اضافہ اور حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو سکتی ہے۔ اب اگر اس بنیادی فارمولے کے حوالے سے دیکھیں تو اگر بوجہ صارفین کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے، حکومت بھی ترقیاتی اخراجات کو کم کر چکی ہے اور برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہوا تو اس کا صاف نتیجہ یہ ہوگا کہ قومی آمدنی میں پچھلے سال کی نسبت کمی آئی ہے۔ اسی کو معاشی سکڑاؤ یا منفی ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔
اب سب سے پہلے تو صارفین کے اخراجات کو لیجئے۔ آپ اپنی روزمرہ زندگیوں میں جانتے ہیں کہ مہنگائی کے بڑھنے کی وجہ سے آپ کی قوت خرید بہت کم ہو چکی ہے۔ اس لئے آپ ان اشیاء کے بارے میں یقیناً اخراجات کم کر دیںگے جو زندہ رہنے یا جسم و جاں کے لئے ضروری نہیں ہیں۔ اب یہ پتا کرنا تو تھوڑا سا مشکل ہے کہ آپ نے کپڑے لتے، سرخی پاؤڈر پر اخراجات میں کتنی کمی کی ہے لیکن کچھ شہادتیں طشت از بام ہوتی ہیں اور ہیں۔ مثلاً کاروں کی مینوفیکچرنگ میں 60فیصد کمی آئی ہے جس کا مطلب ہے کہ پہلے کی نسبت آدھی کاریں بک رہی ہیں۔ اسی طرح برآمدات میں کمی بھی مشیر خزانہ کی جادوگری کی وجہ سے نہیں بلکہ مختلف صارفین اور کاروباری کمپنیوں کی قوتِ خرید کم ہونے سے ہوئی ہے۔ غرض یہ کہ یہ دعویٰ اعتماد کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ تصرفات میں یا کل اشیاء کی خریداری میں کافی کمی آچکی ہے۔
قومی آمدنی کا دوسرا بڑا عنصر سرمایہ کاری ہے اور اس سلسلے میں اسلام آباد سے لے کر واشنگٹن تک اتفاق رائے ہے کہ اس میں کافی کمی آچکی ہے۔ تیسرا عنصر حکومتی اخراجات ہیں تو اس سلسلے میں بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ حکومت تو سڑکیں اور نالیاں بھی نہیں بنا رہی گویا کہ اس مد میں بھی کمی آچکی ہے۔ برآمدات میں بھی اضافہ ناپید ہے کیونکہ پاکستان کے پاس برآمد کرنے کے لئے کوئی زیادہ کچھ ہے ہی نہیں۔ اب اگر قومی آمدنی کے چاروں اجزاء (تصرفات+ سرمایہ کاری+ حکومتی اخراجات+ برآمدات اور درآمدات کا فرق) میں مقدور بھر کمی آ چکی ہے تو قومی آمدنی کہاں سے بڑھی ہے؟ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ قومی آمدنی میں شدید کمی آئی ہے، معیشت سکڑی ہے اور شرح ترقی کافی منفی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ بھی سراسر غلط ہے کہ پاکستان کی معیشت 2فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
اسی فارمولے کا دوسرا رخ رسد کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی کہ کل پیداوار میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ ہم ان کالموں میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بڑھی فصلوں، جیننگ فیکٹریوں سے لے کر کاریں بنانے تک میں شدید کمی آئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب خریداروں کی قوت خرید میں کمی ہو گی تو مختلف اشیاء کے پیدا کرنے والے پیداوار میں کمی کردیں گے۔ اس لئے کسی بھی پہلو سے دیکھئے پاکستان کی معیشت بہت تیزی سے نیچے کی طرف پھسل چکی ہے۔
معاشی سکڑاؤ کے سیاسی نتائج برآمد ہونا ناگزیر ہیں۔ پچھلے چالیس سال کسی نہ کسی وجہ سے معاشی توسیع ہو رہی تھی، لوگوں کی حالت میں تھوڑی بہتری آرہی تھی اس لئے وہ سیاسی عمل سے کافی لا تعلق تھے۔ وہ مشرف سے لے کر زرداری تک سے نباہ کر رہے تھے لیکن اب ان کی جیب اور پیٹ پر ہاتھ پڑا ہے اس لئے وہ زیادہ دیر تک ’’چلتا رہنے دو‘‘ والی سوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔یہ حقیقت تو وارث شاہ ہمیں ڈھائی صدی پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ:
پیٹ واسطے پھرن امیر در در سید زادیاں نے گدھے چارنے نی
پیٹ واسطے سبھ خرابیاں نیں پیٹ واسطے خون گزارنے نی
اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ میں دیوانہ ہوں یا معیشت کے نام نہاد ماہر بے خبری یا دروغ گوئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔