پاکستان کے جوان ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں، ان کی ضرب کاری ہو سکتی ہے، یہ ملک کو جدید ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں اگر ان کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع دیا جائے، میرٹ پر انہیں آگے بڑھنے دیا جائے۔ ان کا راستہ شہزادے، شہزادیاں، امرا، رئوسا اور ان کی اولادیں نہ روک لیں۔ اُن کے سرپرست فرشتے اوپر سے نہ اتر آئیں۔ میں تو جہاں بھی انہیں اپنی تحریر، تقریر کا مظاہرہ کرتے دیکھتا ہوں اپنا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں تعین کرنے لگتا ہوں۔ یہ نہ صرف قومی معاملات کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ عالمی امور پر بھی ان کی دسترس ہے۔ ان کو یقین کامل ہے کہ پاکستان کا استحکام مضبوط معیشت اور بلا امتیاز انصاف میں ہے۔ کراچی کے ایک ہال میں مباحثہ ہورہا ہے ’امن کے لیے جنگ ضروری ہے‘، شہر کی سب ہی بڑی سرکاری پرائیویٹ یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلبہ و طالبات کی ٹیمیں اپنے فنِ خطابت کا اظہار کررہی ہیں۔ کالج آف اکائونٹس اینڈ مینجمنٹ سائنسز کا اہتمام ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس میں دینی مدارس کے طلبہ کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ میرا تو نصب العین یہی ہے ’انتہائوں میں رابطہ‘، انہیں ایک دوسرے کے قریب لائو۔ جب منصفِ اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمد اعلان کرتے ہیں کہ اوّل پوزیشن بھی جامعہ انوار کے طالب علم کو میسر آئی ہے، مباحثے کی ٹرافی بھی جامعہ انوار کے حصّے میں آئی ہے یعنی دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہیں۔ کالج کی انتظامیہ اور پرنسپل پروفیسر فرحت عظیم قومی مبارک باد کی حقدار ہیں۔ یہ سارے طلبہ و طالبات جنہوں نے مباحثے میں شرکت کی تیاری کی۔ اساتذہ اور والدین بھی لائق تحسین۔ میرا ایمان پختہ ہو گیا ہے کہ آپ میرے وطن کے نوجوانوں کے راستے سے موروثی قیادتوں کو ہٹادیں۔ سیکورٹی کلیئرنس کی پابندیاں ختم کردیں۔ تو دیکھیں کہ نوجوان پنجاب سے ہوں، جنوبی پنجاب سے، سندھ شہری سے یا دیہی سے، کے پی سے، بلوچستان سے بلوچ یا پشتون، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، ان نوجوانوں کے میٹھے پانی کے دریا کتنی روانی سے بہیں گے، ملک کے ذہنوں اور دلوں کو کس طرح سیراب کریں گے۔ پارلیمنٹ میں ان کے لیے کچھ سیٹیں محفوظ کردیں۔ ان کے مباحثے ٹی وی چینلوں سے براہِ راست دکھائیں پھر چشمِ فلک دیکھے گی کہ میرٹ کس طرح راج کرتا ہے۔
ربیع الاوّل کا مہینہ ہے۔ پورے پاکستان میں سبز بتیوں کی جھالریں عشقِ نبیؐ کا مظہر بنی ہوئی ہیں۔ میرے ہاتھوں میں ایک انتہائی اہم تحقیق ہے۔ ’حضورﷺ کا سراغ رسانی کا نظام‘، مصنّف اور محقق ہیں ونگ کمانڈر ڈاکٹر ناصر مجید ملک۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ان کے حصّے میں لکھی تھی۔ بہت ہی عرق ریزی، خفیہ ایجنسیاں آج کل سیاستدانوں کے بہت زیر عتاب رہتی ہیں کیونکہ خود سیاستدان بھی ان کے معتوب ہوتے ہیں۔ کتنے رتجگے، کتنے برسوں کتابوں کی ورق گردانی کی، کتنے کتب خانوں کی خاک چھانی گئی ہوگی۔ سراغ رسانی کی عمومی تاریخ بھی ابتدائے کائنات سے تلاش کی گئی ہے۔ مختلف انبیاء علیہ السلام کے دَور میں خفیہ اطلاعات کا نظام کیسے چلتا تھا۔ سب سے اہم اور مرکزی حصّہ تو ’سراغ رسانی عہد نبویﷺ میں‘ ہے۔ تحقیق لائق تحسین، غزوات اور سریات کے الگ الگ واقعات ہیں۔ پہلی بار سیرت نبی ؐاس زاویے سے مطالعے کو ملتی ہے۔ بعد ازاں خلفائے راشدینؓ اور مسلم حکمرانوں کے دَور میں یہ شعبہ کیسے آگے بڑھا۔ عہدِ جدید کے خفیہ اداروں کی داستانیں بھی ہیں۔ جن میں سی آئی اے، را، کے جے بی، چین، فرانس اور سب بڑے ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مبسوط تعارف ہے۔ میں تو ان اوراق سے گزر رہا ہوں اور اپنے آس پاس۔ اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا ادراک کررہا ہوں۔
پشاور موڑ پر جمعیت علمائے اسلام کے اجتماع کا بھی اسی روشنی میں جائزہ لے رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا پشاور موڑ ہماری تاریخ کا فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ ایک واضح پیش رفت تو یہ ہے کہ ایک مذہبی جماعت کی طرف سے پہلا سیکولر مظاہرہ ہے جہاں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتا ہے۔ کیا جے یو آئی اور ان کی اتحادی پارٹیوں کی نیتیں ایک سی ہیں۔ ہدف ایک ہی ہے یا الگ الگ۔ پاکستان میں طاقت کے مظاہرے کی ضرورت ہے یا ذہانت کی۔ ملک کو آگے لے جانے کے لیے کسی کے پاس کوئی پروگرام ہے یا نہیں۔ ضرورت تو یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں یا شخصیتیں کوئی جامع سیاسی، سماجی، اقتصادی، آئینی دستاویز لے کر آرہی ہیں۔ اگر الیکشن کے ذریعے عوام دوست فیصلے نہیں کر پاتے تو کیا انتخابی نظام میں کوئی تبدیلیاں تجویز کی جارہی ہیں۔ ہم مجمع کی تعداد کیوں دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ علم کی طاقت کا دَور ہے۔ ذہن کی قوت کا زمانہ ہے۔ آخر کون ہے جو کبھی عمران خان سے کہتے ہیں دس لاکھ نوجوان لے آئو تو حالات بدل ڈالیں گے۔ دھرنے سے پہلے پہاڑوں میں گھرے ایک ڈرائنگ روم میں خان بڑے اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ جب دس لاکھ موٹر سائیکل سوار اسلام آباد میں داخل ہوں گے تو نقشہ خود بخود بدل جائے گا۔ اب ٹھیک پانچ سال بعد اس میں پانچ لاکھ کا اضافہ کرکے کہا جارہا تھا۔ پندرہ لاکھ کا مجمع ہوگا تو عمران خان کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ یہ کانٹا یا کیلکولیٹر کس کے ہاتھ میں ہے۔ اس دَور میں مجمع فیصلہ کن ہوتا تھا۔ جب الیکشن نہیں ہوتے تھے۔ غیر ملکی استعمار ہوتا تھا یا مارشل لاوالے۔ ان کو عوامی طاقت دیکھ کر اپنی رخصتی کا سامان باندھنا پڑتا تھا۔ اب تو الیکشن وقت پر ہورہے ہیں۔ سارے آئینی ادارے کام کررہے ہیں۔ انتخابی عمل اگر فیصلہ کن نہیں لگتا تو اس پارلیمنٹ کے ذریعے قوانین میں ترمیم کروائیں۔ جس نے یہ قوانین بنائے ہیں۔ جمہوری ماحول کو مزید مستحکم، مزید آئینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لشکر کشی کے بجائے ساری سیاسی جماعتیں اصلاحات متعارف کروائیں۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ ملک کے نظام میں کہاں کہاں خلا ہیں۔ کہاں کہاں دراڑیں پڑی ہیں۔ حکمران بدلنے کے تجربے ناکام ہورہے ہیں۔ نظام بدلنے کی طرف آئیے۔ قومی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر یہ اہلیت نہیں رکھتے۔ اصلاحات کی صورت میں وہ اپنے آپ کو درمیان سے ہٹتا دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ خودکشی کیوں کریں۔ یہ کام یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کو کرنا چاہئے۔ وہ عوام کا مزاج دیکھیں۔ صوبوں کی صورتحال اور سوچ کے مطابق تحقیق کر کے صرف انتخابی نظام ہی نہیں۔ سارے قوانین میں اصلاحات تجویز کریں۔ رائے عامہ کو اپنا دبائو بڑھانا پڑے گا۔ صرف اسلام آباد اور پنڈی کے ہاتھوں میں 22کروڑ کی تقدیر دے کر 1971سے دیکھ رہے ہیں کہ عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ خواص ہی باریاں لیتے رہتے ہیں۔