• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہر سیاسی پارٹی کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کو گزشتہ چودہ ماہ میں ڈیلیور کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔

عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت بتائے کہ اس نے اب تک عوامی فلاح و بہبود کا کوئی ایک بھی کام کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ اسلام آباد میں حکومت مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے اور دھرنے سے نجانے کیوں خوفزدہ تھی؟ آئینی اعتبار سے تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں گے تو ہی ملک آگے بڑھ سکے گا۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو غیر واضح اور بے یقینی کیفیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حکومت نے غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرکے اپنے لئے خود مشکلات کھڑی کیں۔ مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کے لئے سیاسی بیانات آئین سے انحراف کے مترادف ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے ملک و قوم کو سترہ برسوں تک امریکی جنگ میں جھونک کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ملک اب مزید عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

سیاسی قیادت کو غیر دانشمندانہ فیصلوں سے اجتناب برتنا چاہئے اس سے جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ عوام دشمن حکومتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھانا جمہوری قوتوں کا حق ہے اور اس کو کسی بھی صورت چھینا نہیں جا سکتا۔ حکمرانوں نے اگر 14ماہ میں عوام کو ریلیف دیا ہوتا اور اپنے وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل کیا ہوتا تو آج عوام اور سیاسی جماعتیں سڑکوں پر نہیں ہوتے۔

حکومتی وزراء اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں تو حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ حکومت کے نادان دوست حکومت کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ملک و قوم کو اس وقت بیرونی دشمن سے مقابلے کے لئےجس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا وہ حکمرانوں کے غیر دانشمندانہ طرزِ عمل اور غیر سنجیدگی کی نذر ہو گیا ہے۔ اقتصادی ترقی گزشتہ دس سالوں کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

زرعی و صنعتی شعبے جمود کا شکار، قرضے اور واجبات 40ہزار 300ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔ عوام کو درپیش مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے جز وقتی اقدامات کرکے مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔

موجودہ حکمراں ملک کو تاریکیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اورنج ٹرین منصوبہ 27ماہ میں مکمل ہونا تھا، آج چار سال بعد بھی ادھورا ہے۔ گندم کی کاشت کا معاملہ بھی اربابِ اقتدار سے نہیں سنبھل رہا۔ ڈیلرز کی جانب سے ملک بھر میں ڈی اے پی، نائٹروفاس اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں فی بوری چار سو روپے تک اضافہ کرنا قابل مذمت ہے۔

زرعی ادویات کے ڈیلرز اور دکانداروں کے خود ساختہ اضافے سے کاشتکاروں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈی اے پی کی قیمت 4سو روپے مزید مہنگی فروخت ہو رہی ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں کھادوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں پوری طرح ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

ملک کی آبادی کا 70فیصد تک ضروریات پوری کرنے والا شعبہ زراعت بھی نااہلی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ کاشتکاروں کو خصوصی مراعات دینے، پانی و بجلی کے بلوں میں خاطر خواہ ریلیف فراہم کرنے اور درپیش مسائل کو کسانوں کی دہلیز پر حل کرنے تک اس شعبے میں بہتری نہیں آ سکتی۔

گزشتہ دنوں سانحہ ساہیوال کے مجرمان کا بری ہونا تشویش ناک امر ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرعام دن کی روشنی میں فائرنگ کرکے چار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن سی ٹی ڈی کا کوئی اہلکار مجرم ثابت نہ ہو سکا۔

سانحہ ساہیوال کے ملزمان کا رہا ہونا صرف حکومت اور اداروں کی ناکامی نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کی ناکامی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو اپنے تربیتی کورس میں انسانی حقوق بھی شامل کرنا چاہئیں۔

ہمارے ہاں اب تک اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جا سکا۔ شہریوں کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماڈل ٹاون واقعہ کی طرح سانحہ ساہیوال کا بھی فرسودہ نظام کی نذر ہونا ظلم عظیم ہے۔

یوں محسوس ہوتا جیسے ملک میں غریب عوام کے جان و مال کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔

ساہیوال واقعے میں ملوث افراد کا شک کی بنیاد پر رہا کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے۔ سانحہ ساہیوال کے حوالے سے جاری کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق بچوں کو گاڑی سے اتار کر دوبارہ فائر کئے گئے تھے۔

ماورائے عدالت قتل عام پر اہلکاروں کو بچانے کے لئے جن اوچھے ہتھکنڈوں کو روایتی انداز میں استعمال کیا گیا ہے وہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں ملوث افراد کی رہائی بہت بڑا ظلم ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس واقعہ کے ذمہ داران کو عبرت ناک سزا دی جائے گئی لیکن مقام افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ امید ہے کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئےحکومت فعال کردار ادا کرے گی۔

تازہ ترین