• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان۔۔۔ مانچسٹر
لمحہ بھر کے لئے سوچیں کہ آپ جو چاہیں کھا سکتے ہیں اور جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں دوسرے لمحے ہی ان لوگوں کے بارے میں سوچئے جن کو بھوک لگی ہو اور ان کے پاس کھانا موجود نہ ہو یا وہ خاندان جن کے پاس کھانا اس قدر کم ہے کہ وہ ان کو خاندان کے افراد میں بانٹ دیتے ہیں اور کھانے کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے جو ان کی بھوک مٹا نہیں سکتی. سمندروں کے کنارے سخت حالات میں رہنے والے ماہی گیروں کے بارے میں سوچیں جن کی وجہ سے سی فوڈ ملتا ہے . پوش ٹیبلوں پر کانٹے چھری کے چھوٹا سا فش کاپیس مہنگے داموں میں ملتا ہے. اس ماہی گیر کا چہرہ سامنے لائیں جس کے چہرے پر ہڈیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا جس کی آنکھوں میں چمک کی بجائے اندھیروں کا ڈیرہ ہے.لمحہ بھر سوچیں مزدور کی زندگی کے بارے میں خوبصورت عمارتوں کی بنیادیں بھرنے والوں کے .. ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات، دنیا میں موجود خوبصورت اور مشکل راستوں پر بنی شاندار عمارتوں میں کام کرنے والے مزدور نہ صرف حادثات میں مر جاتے ہیں بلکہ ان کا نام جاننے والابھی کوئی نہیں ہوتا، غریب بیچارے کے پاس چوائس ہی بہت کم ہوتی ہیں، اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے پیسے نہیں، وہ سکول نہیں جا سکتا،جو کچھ زمانہ سکھاتا ہے وہی اس کا پروفیشن یا کام بن جاتا ہے، پچھلے دنوں یوکے میں ایک کنٹینر پر سے ملنے والی 39 لاشوں کے بارے میں سوچئے وہ امیروں کی لاشیں نہیں تھیں، تلاشِ رزق میں دربدر ہوتے ہوئے لوگ موت کی آغوش میں جا سوئے تھے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ غریب اور خاص رنگ ونسل کے لوگ ظالمانہ تک تکلیف ده زندگی گزارتے ہیں، اس مہذب دنیا میں غریب انسان حکومتی سطح میں کسی سسٹم میں نہیں آتے جہاں ان کی صحت کا خیال رکھا جا سکے ان کا احساس کیا جاسکے،نتیجہ کیا ہے! کہ وہ جلد مر جاتے ہیں غریبوں میں رنگ و نسل آڑے آتی ہے، افریقن غریب لوگ سفید فام لوگوں کی نسبت جلد مر جاتے ہیں .40% افریکن دل کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں جبکہ سفیدفام میں اسی بیماری کا ڈیتھ ریٹ 21 فیصد ہے۔ معاشرے میں کوئی ایسا نظام نہیں ہے جو غریب یا کم پڑھے لکھے لوگوں کی زندگی بہتر کرنے میں مدد کرے غربت کی تعریف مختلف ملکوں میں مختلف یا الگ ہو سکتی ہے لیکن عام معنوں میں ہم یہاں ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو غریب ہیں کھانے پینے اور رہنے کی سہولت نہیں ہے، تعلیم نہیں ہے، یا پھر کام کی اجرت ان کو کم سے کم ملتی ہے، اکیسویں صدی کا غریب کس طرح زندہ رہ رہا ہے، حقیقت جاننے کے لئے آپ کسی غریب کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کریں، حقیقت حال جان لینے کے بعد دل کرچی کرچی ہو جائے گا،اسلام آباد میں میرے گھر کے باہر ایک بڑے درخت کے نیچے ایک جوتے گانٹھنے والا جس کو موچی کہتے ہیں اپنے اوزاروں کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا،انسان کم ہڈیوں کا ڈھانچہ زیادہ نظر آتا تھا، گھر کے حالات اس کی شکل سے عیاں تھے اگر آپ جوتے پالش کروانے یا جوتا مرمت کروانے اس کے پاس کھڑے ہوں تو آپ کا دل کہے گا کہ اس شخص کی مدد کر سکوں میں اکثر اس کو گھر بلوا کر کوئی نہ کوئی کام کروا کر اس کو اجرت دے دیا کرتی تھی ایک مرتبہ اس کو بلایا که دیوار پر ایک تصویر لگانی تھی کام کرتے ہوئے بولا کہ باجی اس تصویر کے فریم کی قیمت ہمارے پورے مہینے کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے، ظاہر سی بات ہے کے مجھے بہت ہی شرمندگی کہ یہ تو بہت ہی ناانصافی کی بات ہے، میں نے اسے کہا کہ اگر تمہیں اس کام سے آمدنی نہیں ہوتی تو تم کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے وہ بولا کہ مجھے ٹھیلا لگانا ہے لیکن اس کے لئے کچھ پیسے چاہئیں تو میں نے سوچا کہ میں کچھ بندوبست کرتی ہوں اس کو رقم اکٹھی کر کے دی اب وہ کچھ خوش نظر آنے لگا تھا اور اس کا کام چل پڑا تھا، لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ کچھ اور پیسوں کے تقاضے کے لئے آجاتا کہ جی مال لانے کے لئے پیسے نہیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم حقیقت جان نہیں سکتے ہم سمجھتے ہیں کہ غریب کو مانگنے کی عادت پڑ گئی ہے مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی غریب کو جینے نہیں دیتی اور پھر المیہ یہ کہ غریبوں کے بچے بھی بہت ہوتے ہیں اس کے نو بچے تھے خرچہ پورا کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی کچھ عرصے میں ہم لوگ یوکے آگئے تھے ایک مرتبہ اسلام آباد جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ شخص جس کا نام بھی اب مجھے یاد نہیں وہ مر چکا تھا، نو بچے اور بیوی کو غربت کی دنیا میں چھوڑ کر….جبکہ یہاں یو کے میں ایک مرتبہ جوتا مرمت کروانے کی ضرورت پڑی ایک سپرمارکیٹ کےبازو میں جوتا مرمت کرنے کی ایک بہت بڑی کمپنی تھی جس سے کام کروانے کا مطلب یہ تھا کہ نیا جوتا خرید لیا جائے بجائے اس کے کہ پرانے کو ٹھیک کروایا جائے۔دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ غریب کے لئے صحت اور تعلیم کے مواقع موجود نہیں ہیں، بعض لوگوں کے لئے غربت عارضی تجربہ ہوتا ہے اور وہ اس سے نکل آتے ہیں، لیکن اصل مسئلہ ان لوگوں کا ہے جس کے لئے غربت مستقل چیز ہے، برطانیہ میں بھی بے گھر لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے غربت کی تعریف یہاں غیر ترقی یافتہ ملکوں سے الگ ہے تاہم کام کی اجرت میں عدم مساوات، ملازمت میں عدم تحفظ اور پینشن لینے والوں کی پینشن اتنی کم ہے کہ وہ بھی صحیح سے گزارا نہیں کر پاتے یہاں غربت کا مطلب یہ ہے کہ صبح آپ اٹھتے ہیں تو گھر کی ہیٹنگ نہیں چلا سکتے، گھر کا کرایہ نہیں دے سکتےاور بچوں کے لئے ضروری چیزیں نہیں خرید سکتے، یونائیٹڈ نیشن کے ڈیولپمنٹ پروگرامز کی حالیہ سروے کے مطابق دنیا کی آبادی کا 74 فیصد حصہ مختلف قسم کی غربت میں رہتا ہے، خواہ ان کو حادثاتی طور پر نقصان اٹھانا پڑ گیا ہے یا ان کے پاس قطعی کچھ نہیں ہے، دیہاتوں میں رہنے والے غریب لوگ شہروں میں رہنے والے غریب لوگوں سے زیادہ تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں، دنیا میں 26 امیر ترین لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے جتنا کہ دنیا کی نصف آبادی یعنی تین اعشاریہ آٹھ ملین لوگوں کے پاس موجود ہے،اور یہ امیر لوگ ہر سال 12 پرسنٹ کی گروتھ کے ساتھ امیر ترین ہو رہے ہیں، شاید اسی کے نتیجے میں غریب، غریب ترین ہو رہا ہے،دنیا کی آبادی کا ایک پرسنٹ سے بھی کم لوگوں کا گروہ بقیہ چوالیس اعشاریہ 8 پرسنٹ دولت کو کنٹرول کر رہا ہے اس عدم مساوات کو ختم کرنا کیا آسان ہوگا ؟ ہم مفروضہ قائم کر سکتے ہیں کہ آج نہیں تو کل اس لعنت کو اس دنیا سے ختم ہو جانے کی کوششیں بار آور ہوں گی۔ مقتدر ادارے غربت کوکم کرنے میں خاطر خواہ کام نہیں کر رہے، اگر اس ایک مسئلے پر کام کر لیا جائے، اس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس سے جڑے بے شمار منفی رویے خود بخود ختم ہو جائیں گے، سب سے پہلے تو لوگوں کی صحت اچھی ہوگی، ان کی سوچ مثبت ہوگی، جرائم ، غربت کی پیداوار ہیں، ناجائز کام، بری عادت اور چائلڈ لیبر یہ سب معاشرے کے ناسور ہیں، غریب برے حالات میں کام کرتا ہے اور پھر بھی پانی اور خوراک سے محروم ہوتا ہے، نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، پیسوں کے عوض ان کے مقاصد سے پورے کرنے کے لئے کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. اس سے ملکوں میں تقسیم ہو رہی ہے، بےچینی بڑھ رہی ہے،غربت کو کم کرنا کسی بھی حکومت کا اولین ایجنڈہ ہونا چاہیے،انتخابات میں جیتنے کے لئے سارے منصوبے غریبوں کے لئے ہوتے ہیں لیکن یہ محض خواب ہوتے ہیں جن کی تعبیر غریب کو اپنی زندگی میں نہیں ملتی، اس کی جدوجہد اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے، چند اہم افراد کروڑوں لوگوں کے پیسوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں، زندگی مختصر ہے لیکن غریب کی زندگی بہت ہی مختصر ہے۔ گورنمنٹ کی سطح پر غربت کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، معاشرے میں ایک انسان ہونے کے ناتے غریب کو حقارت سے دیکھ کر اس کی زندگی مزید تلخ نہیں بنانی چاہیے، سوسائٹی میں غریب سے دوستی نہیں کی جاتی ہے، امیروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، غلط طریقوں سے دولت کمانے والے امیروں کو ایماندار غریبوں کے مقابلے میں عزت اور مرتبہ دیا جاتا ہے،غریب جو کہ کمزور آدمی سمجھا جاتا ہے اس کو اس کی مہارت کا معاوضہ کم ملتا ہے، زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم ذہنی اور جسمانی تشدد جو ایک طاقتور کرسکتا ہے وہ آج کے غریب پر کیا جا رہا ہےاور غریب بیچارہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی قسمت یہی ہے،21ویں صدی کے غریب کے دن کب پھر یں گے۔
تازہ ترین