• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللہ! آج 12ربیع الاول کا دن ہے۔ ہمارے آقا و مولا اور اللہ وحدہ لا شریک کے آخری نبی، سرورِ کائنات، فخر موجودات، خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین، شرفِ کون و مکاں، ہادی دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادتِ باسعادت کا مبارک دن، ظہورِ قدسی کی خوشیاں منانے اور انسانیت کے رہبرِ اعظم کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کرنے کا دن۔ اسلامی کلینڈر کے اجرا سے قبل بھی سن ہجری کے تمام مہینے انہی ناموں کے ساتھ قدیم قمری کلینڈر کا حصہ تھے۔ 12ربیع الاول کا دن اِس دور میں بھی آتا اور ایک عام سے دن کی طرح کسی کی توجہ حاصل کیے بغیر گزر جاتا۔ اِسے فضیلت اُس وقت ملی جب سرتاجِ الانبیاء، نبیؐ آخر الزماں عالمِ ارواح سے عالمِ اسباب میں تشریف لائے اور انسانیت کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالنے کیلئے رشد و ہدایت اور فلاح و نجات کا ابدی پیغام، اولادِ آدم کیلئے نیا ضابطۂ حیات اور امن و سلامتی کا مکمل دین اپنے ساتھ لائے۔ اس پُرمسرت موقع کی مناسبت سے دنیا بھر کے مسلمان آج اپنے اپنے انداز میں عیدِ میلاد النبیؐ کی خوشیاں مناتے، درود و سلام کی پاکیزہ محفلیں سجاتے، نعت و منقبت کی مجالس آراستہ کرتے، شانِ رسالتؐ میں ہدیہ تبریک پیش کرنے کیلئے جلسے جلوسوں کا اہتمام کرتے، مساجد، گھروں، گلی محلوں اور کوچۂ و بازار میں چراغاں کرتے اور غرباء و مساکین میں نذر و نیاز تقسیم کرتے ہیں۔ یوں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرستادہ تمام نبی اپنا اپنا دین، اپنی اپنی شریعت لائے جو بنیادی طور پر اسلام ہی تھا لیکن اُن کی تعلیمات میں وقت گزرنے کے ساتھ تحریف و ترمیم ہوتی رہی۔ تب خالقِ کائنات نے اپنی عنایتِ خاص سے ہر دور اور ہر مقام کے انسانوں کیلئے ہدایت و رہنمائی کا ایسا اہتمام کیا کہ قیامت تک کوئی اس میں سرمو تحریف نہ کر سکے۔ حضور پاکؐ پر قرآن حکیم کی صورت میں جو کلامِ ربانی اتارا گیا اس کی حفاظت خود اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی اور ایسا اہتمام کیا کہ آج تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود قرآن پاک کی ہر آیت لفظ بلفظ لاکھوں حفاظِ کرام کے سینوں میں محفوظ ہے۔ یہ اعجاز صرف قرآن کریم کا ہے۔ دنیا کی کسی دوسری کتاب یا کلام کے بارے میں اس طرح کا دعویٰ تو کجا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس عظیم ہستی پر یہ کتابِ مبین اتاری گئی اُن کا اپنا اسوۂ حسنہ اس کے ایک ایک لفظ کی عملی تصویر ہے۔ حضور پاکؐ نے ریاستِ مدینہ جن خطوط پر استوار کی، وہ اسلامی طرزِ معاشرت، فلسفۂ سیاست اور اصولِ سفارت کی درخشاں مثال ہے۔ بدقسمتی سے الحاد و ارتداد کے موجودہ ماحول میں اسلام کی ابدی تعلیمات سے روگردانی کی بدولت آج عالمِ اسلام انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ پاکستان بھی کئی طرح کے اندرونی و بیرونی خطرات، سیاسی و معاشی عدم استحکام اور معاشرتی و عمرانی ناہمواریوں سے دوچار ہے۔ ایسے میں تاجدارِ حرم نے ریاست ِمدینہ کیلئے احکاماتِ الٰہی کی روشنی میں طرزِ حکمرانی کے جو اصول وضع کئے تھے اُن کی متابعت کی جائے تو پاکستان ایک ماڈل اسٹیٹ بن سکتا ہے۔ یہ امر انتہائی خوش کن ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتیں اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے طبقات ریاستِ مدینہ کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے آپس کے اختلافات کا حل نکالیں۔ ساری قوم کی نگاہیں اِس وقت مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی تحریک، آزادی مارچ اور دھرنے پر مرکوز ہیں جسے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حضورنبی کریمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں یہ مسئلہ جلد از جلد پُرامن طور پر اور خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے تاکہ قوم میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ ملے۔

تازہ ترین