• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس بار شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ایسے موقع پر آیا جب پاکستان میں سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتارپور راہداری کا افتتاح اور عین اِس موقع پر بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کی زمین ہندوئوں کے حوالے کرنے کا متعصبانہ فیصلہ سنایا جارہا تھا۔ اس طرح ایک طرف دنیا بھر میں سکھ مذہب کے ماننے والے کرتارپور راہداری کے افتتاح اور بھارتی ہندو، بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھے جانے کا جشن مناتے نظر آئے تو دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر برصغیر کے مسلمان ماتم کرتے نظر آئے۔ بھارتی عدلیہ کے فیصلے سے ایک ہی دن میں دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان نے جہاں بھارتی سکھ اقلیتوں کو گرونانک مزار کیلئے اپنی سرزمین پر راہداری فراہم کی، اُسی دن بھارت میں مقیم مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی۔ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندوئوں کے حوالے کرنے اور اس زمین کے بدلے مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کیلئے 5 ایکڑ زمین فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جسے بھارتی مسلمانوں نے لینے سے انکار کردیا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں خیرات میں دی گئی زمین نہیں چاہئے کیونکہ بابری مسجد پر اُن کا دعویٰ زمین کا حصول نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدس مقام کا حصول تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کرتارپور راہداری کے افتتاح کے کچھ روز بعد سنایا جانا تھا مگر اچانک تاریخ میں تبدیلی کرکے طے شدہ افتتاحی تقریب کے موقع پر فیصلہ سنایا گیا جسے بددیانتی سے تعبیر کیا جارہا ہے کہ بھارتی مذموم عزائم اس روز بھی چھپے نہ رہے۔

پاکستان کے علاقے کرتارپور میں واقع سکھوں کے روحانی پیشوا باباگرونانک کا گردوارہ، کرتارپورراہداری کی تعمیر سے قبل محض 4 ایکڑ رقبے پر محیط تھا جس میں حکومت کی جانب سے مزید 20 ایکڑ رقبے کا اضافہ کیا گیا اور اب اس گردوارے کا شمار دنیا کے بڑے گوردواروں میں ہونے لگا ہے جو یقینا سکھوں کیلئے بے پناہ مسرت کا باعث ہے لیکن بھارتی حکومت اِسے اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے اور مودی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک ہی دن میں رام مندر کی بنیاد اور کرتارپور بارڈر کا خاتمہ ممکن بنایا۔ باباگرونانک کے جنم دن کے موقع پر کرتارپور راہداری کا افتتاح خوش آئند بات ہے لیکن پاکستانی مسلمانوں کیلئے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط جتنا تکلیف دہ ہے، اتنا ہی تکلیف دہ بھارتی سکھوں کا بغیر ویزا پاکستانی علاقے کرتارپور آنا ہے۔ اِس سرحد پر برچھوں میں پروئے گئے مسلمان بچوں کی بے نشان قبریں آج بھی ہمیں اُن مظالم کی یاد دلاتی ہیں جب بھارتی پنجاب کے راستے پاکستان ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا گیاتھا۔ میری والدہ محترمہ اکثر یہ واقعہ سنایا کرتی تھیں کہ ’’بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجرین سے بھری ٹرین جس میں وہ اور خاندان کے دیگر افراد سوار تھے، جب بھارتی پنجاب سے گزری تو سکھوں نے ٹرین میں موجود تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو بے دردی سے قتل کردیا جبکہ نوجوان لڑکیوں کو اٹھاکر لے گئے اور وہ سانس روکے لاشوں کے درمیان اِس طرح پڑی رہیں کہ جیسے وہ بھی مرچکی ہوں، اس طرح وہ زندہ سلامت پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہیں۔‘‘

عیدمیلادالنبیﷺ اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر کرتارپور راہداری کے افتتاح کی ٹائمنگ، بغیر پاسپورٹ بھارتی سکھوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے اور راہداری تقریب کو میڈیا پر ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کو بھی پاکستان کے کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، اُن کے یوم پیدائش پر کسی حکومتی شخصیت نے کوئی پیغام نہیں دیا اور نہ ہی بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کیس میں دیئے گئے فیصلے پر مذمتی بیان دینا گوارہ کیا کیونکہ اس روز وزیراعظم، وزیر خارجہ، گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب سے لے کر پوری حکومتی مشینری سر پر رومال باندھے کرتارپور راہداری کے افتتاح میں مصروف تھی اور باباگرونانک کے 550 ویں جنم دن کا جشن مناکر خود کو ’’سیکولرازم‘‘ کا علمبردار قرار دے رہی تھی۔

بھارت دنیا میں سیکولرازم کا پرچار کرتا پھرتا ہے مگر بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کے دعوے کا پردہ چاک کردیا ہے۔ بھارت میں سیکولرازم 1992ء میں اُس وقت مرگیا تھا جب نہ صرف بابری مسجد کو شہید کیا گیا بلکہ اس جرم میں ملوث افراد کو سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا گیا اور آج بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھارتی مسلمانوں نے بابری مسجد کی شہادت کی 27 ویں برسی منائی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ اگر بابری مسجد کو 1992ء میں شہید نہ کیا جاتا تو کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آج کے فیصلے سے مختلف ہوتا اور بابری مسجد ہندوئوں کے حوالے کردی جاتی۔ یقینا نہیں کیونکہ بابری مسجد کی شہادت بھارتی ہندو انتہا پسندوں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر تھا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارت کے مسلمانوں کی نظریں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب مرکوز تھیں کہ شاید سپریم کورٹ حکومتی اقدام کو آئین کے منافی قرار دے گی مگر بابری مسجد کیس کے حالیہ فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں اور اعلیٰ عدلیہ میں بھی انتہا پسندی سرایت کرگئی ہے، اِس لئے بھارتی مسلمانوں کو مسئلہ کشمیر پر بھارتی سپریم کورٹ سے کوئی اچھی امید نہیں رکھنا چاہئے۔ بھارت میں ہندو بالادستی اور انتہا پسندانہ نظریئے کی لہر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو علاقائی امن و استحکام کیلئے شدید خطرہ ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں جنہوں نے ’’وتورا‘‘ اور ’’ونارسی‘‘ میں مزید دو مساجد پر دعویٰ دائر کیا ہے کہ یہ مساجد ہندوئوں کے مندر مسمار کرکے تعمیر کی گئی تھیں ۔بھارتی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ پر ایک ’’بدنما‘‘ داغ ہے جس سے بھارت میں مقیم اقلیتوں میں مزید عدم تحفظ پیدا ہوگا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور جانبدارانہ فیصلے کے بعد آنے والے وقت میں ہندو انتہا پسند بھارت میں کسی بھی مسجد، گرجا گھر یا گوردوارے کو متنازع بناکر اس پر قابض ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین