• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شافعہ افضل

سفینہ کا تعلق ایک کھاتے، پیتے گھرانے سے تھا ۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ اس کے والدین ڈاکٹر تھے اور اپنا ذاتی اسپتال چلا رہے تھے ۔ ان دونوں نے دن رات وقف کر کے اسپتال کو اس مقام تک پہنچایا تھا کہ آج وہ شہر کا بہترین اسپتال سمجھا جاتا تھا ۔ غریب مریضوں کے لیے خاص کوٹہ تھا ،جس سے ان کا مفت علاج کیا جاتا تھا ۔ اتنے بڑے اسپتال کے مالک ہونے کے باوجود سفینہ کے والدین سرفراز احمد اور ثمینہ سرفراز میں غرور نام کو نہیں تھا بلکہ انکساری اور خدا ترسی کُوٹ، کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ لوگ ہر وقت ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے تیّار رہتے تھے۔ 

کبھی کسی غریب شخص کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے،۔ مگر معلوم نہیں کیا وجہ تھی کہ سفینہ بالکل بھی اپنے والدین پر نہیں گئی تھی، اس میں حد درجہ غرور ، خود پسندی اور نخرہ تھا ۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔ غریب اور ضرورت مند لوگوں سے اسے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ان کے ساتھ اس کا رویّہ نہایت ہتک آمیز اور نامناسب ہوتا تھا ۔ 

گھر کے تمام ملازمین اس سے تنگ تھے ۔ خاص طور پر بُوا ، جو بچپن سے اس کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا خیال رکھتی تھیں۔ سفینہ ہر وقت ان کا ناک میں دم کیے رکھتی تھی۔ کوئی بھی چیز اس کے کھانے کے لیے لاتیں وہ اس میں سو کیڑے نکالتی ۔ کبھی کہتی ، " نمک کم ہے، کبھی کہتی میٹھا تیز ہے ، کبھی کہتی کہ اب میرا مُوڈ نہیں ہے لے جائیں ۔" بے چاری بُوا پریشان ہو جاتیں۔ 

وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور اپنی بیٹی عذرا کے ساتھ سرفراز صاحب کے گھر میں ہی سرونٹ کواٹر میں رہتی تھیں ۔ سرفراز صاحب عذرا کی پڑھائی کا خرچ بھی اُٹھاتے تھے اور انھیں یہاں دوسری بہت سی سہولیات بھی میسّر تھیں جو اور کہیں نوکری کرنے پر شاید انھیں نہ مل پاتیں ۔دونوں میاں بیوی ان کی بہت عزّت کرتے تھے اور ان کا خیال بھی رکھتے تھے ۔

سفینہ کی عمر تیرہ سال ہو چکی تھی ۔ حال ہی میں اس کے والدین نے اس کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی تھی ۔ غریب بچّوں میں تحائف اور کپڑے تقسیم کیے، مگر سفینہ ان کو دیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھتی تھی ۔اس کی ماں اسے بہت سمجھاتیں کہ، "جب اللہ پاک نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اُن میں اور خود میں فرق کرنے والے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبّت کرتا ہے جو اس کی مخلوق سے محبّت کرتے ہیں اور ان کے کام آتے ہیں۔ " مگر سفینہ کے کان پر جوں تک نہ رینگتی ۔

ایک دن وہ اپنے گھر کے لان میں عذرا کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی ساتھ ہی ساتھ مسلسل اسے بے عزّت کیے جا رہی تھی ۔ " یہ تم کیسے بھاگ رہی ہو؟ جلدی جاؤ شٹل کاک لے کر آؤ ۔ سہی سے کھیلو ۔ اتنا اونچا شارٹ نہ مارو ۔" عذرا اس صورتِ حال سے پریشان تھی، مگر مجبور تھی کہ اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ 

بقول اس کی ماں کے، " بیٹا سرفراز صاحب اور ثمینہ بیگم کے ہمارے اوپر بہت احسانات ہیں ۔ ہم ان کا بدلہ کبھی نہیں اُتار سکتے۔ انھوں نے اُس وقت ہمارا ساتھ دیا جب ہم اِس بھری دنیا میں بالکل اکیلے رہ گئے تھے ۔ وہ تو ہمارے ساتھ اچّھا سلوک کرتے ہیں ناں ! سفینہ بی بی ناسمجھ ہیں سمجھ جائیں گی ایک دن ۔ " اس دن کے آنے کی امّید میں عذرا ہر روز سفینہ کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ۔

کھیل کے دوران بھاگتے ہوئے ، اچانک سفینہ فرش پر بہت زور سے منہ کے بل گری ۔ اس کے منہ سے بے تحاشہ خون نکل رہا تھا ۔ عذرا گھبرا کر اندر بھاگی اور جا کر ماں کو بتایا ۔ بُوا بھی گھبرا گئیں ۔ انہوں نے جلدی سے ثمینہ بیگم کو فون کر کے اس صوتحال سے آگاہ کیا ۔ اس دوران وہ دوسرے ملازمین کے ساتھ مل کر سفینہ کو اندر لائیں ۔ اس کا منہ دھلایا، مگر خون تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ جلد ہی سرفراز صاحب اور ثمینہ بیگم آگئے اور سفینہ کو اسپتال لے گئے ۔ 

ایکسرے کروانے پر پتا چلا کہ اس کے دونوں جبڑے فریکچر ہو گئے ہیں ۔ سفینہ شدید درد سے تڑپ رہی تھی ۔ فوری طور پر اس کی سرجری کی گئی اور جبڑوں کو تین ہفتے کے لیے سِیل کر دیا گیا تاکہ وہ سہی طریقے سے جُڑ جائیں ۔ تین ہفتے تک سفینہ کوئی ٹھوس چیز نہیں کھا سکتی تھی صرف پتلی چیزیں لے سکتی تھی ۔ وہ بھی بہت مشکل سے اندر جاتیں ۔ اس کے گھر دنیا کی ہر نعمت موجود تھی مگر وہ کچھ نہیں کھا سکتی تھی ۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی ۔ اس کے والدین اسے دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے ،مگر کیا کیا جاسکتا تھا؟ 

شاید یہ اس کے کیے کی سزا تھی یا اللہ تعالیٰ اسے سبق سکھانا چاہتے تھے کہ جو شخص اس کے دیے ہوئے رزق میں مین میخ نکالتا ہے وہ اسے اس سے محروم کر دیتا ہے، پھر وہ نظروں کے سامنے ہونے کے باوجود بھی اسے حاصل نہیں کر سکتا ۔ دوسرے جو بھی شخص اللہ کے بندوں کو تکلیف دیتا ہے اللہ اسے اس کی سزا ضرور دیتا ہے ۔ چوٹ نے اور تین ہفتوں کی اس مدّت نے سفینہ پر گہرا اثر ڈالا ۔ جو بات اس کے والدین لاکھ کوشش کے باوجود اسے نہ سمجھا سکے وہ اس حادثے نے اسے اچھی طرح سمجھا دی ۔ 

اسے سمجھ میں آگیا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل اور اس کے پیچھے ہماری نیت سے واقف ہے ۔ ایک نہ ایک دن وہ ہر اچھائی یا برائی کا بدلہ ہمیں ضرور دیتا ہے۔ سفینہ بھی یکسر بدل گئی اب نہ وہ کھانے میں نخرے کرتی اور نہ غریبوں کو خود سے کم تر سمجھ کر انہیں بے عزّت کرتی تھی ۔ اللہ پاک نے اسے گرایا تاکہ وہ مزید پستی میں نہ گرے اور گرا کر پھر اٹھایا تاکہ وہ اُن بلندیوں کو چھوئے ،جس پر اس کے والدین یا اُن جیسے اچھے لوگ فائز ہیں ۔ سچ ہے بعض مرتبہ کوئی چوٹ ہمیں ایسا سبق دے جاتی ہے جو ہم عام حالات میں کبھی نہیں سیکھ سکتے ۔

تازہ ترین