یہ اچھی بات ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو طبی بنیادوں پر نہ صرف عدالتوں سے ضمانتیں مل گئی ہیں بلکہ انہیں بیرونِ ملک جانے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کی جانب سے پیش کی جانے والی سیاسی تاویلیں اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے انتہائی افسوس ناک ہیں۔
ایسی عامیانہ تاویلیں اور تبصرے کرنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ علاج نہ ملنے کی وجہ سے اگر خدانخواستہ میاں نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے کہ تو ملک پر اس کے کیا سیاسی اثرات ہوں گے۔ اب اس کے ساتھ اس امر کا بھی احساس کر لینا چاہئے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی طبیعت بھی بہت زیادہ خراب ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ہر فورم پر اس معاملے کو اٹھا رہی ہے۔ فیصلہ سازوں کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اس پر توجہ دیں اور سابق صدر کو مناسب طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں۔ انہیں بھی پاکستان میں یا بیرونِ ملک علاج کرانے کی اجازت دی جائے۔
بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو گئے ہیں، جس میں پروپیگنڈا نے دلیل کو زیر کر دیا ہے۔ اس عہد کے زیادہ تر لوگ مجھ پر یہ الزام لگا دیں گے کہ میں ان لوگوں کی وکالت کر رہا ہوں، جنہیں عدالتوں نے نہیں بلکہ پروپیگنڈا نے ’’کرپٹ‘‘ ثابت کر دیا ہے۔
آج کے عہد کے لوگ خصوصاً نوجوان نہ تو پاکستان کی تاریخ کے اس طرح گواہ ہیں، جس طرح ہم ایسے لوگ ہیں اور نہ ہی انہوں نے وہ عہد دیکھا، جس میں سیاسی تحریکیں تھیں اور طاقت پر دلیل کو فتح حاصل تھی۔ آج کی نوجوان نسل کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں احتساب کی آڑ میں سیاسی اور جمہوری عمل کا راستہ روکنے اور سیاسی رہنماؤں کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
آصف علی زرداری کو میں پورے سیاسی اور نظریاتی شعور کے ساتھ جانتا ہوں۔ وہ میرے دوست ہیں۔ میں پہلی ملاقات سے لے کر آج تک انہیں ایک غیر معمولی انسان تصور کرتا ہوں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے آصف علی زرداری سے میرے تعلقات ہیں اور یہ تعلقات ان کے والد حاکم علی زرداری کی وجہ سے ہیں۔ حاکم علی زرداری سے میں نے اسٹیبلشمنٹ کی کیمسٹری کو سمجھا۔
یہی ورثہ آصف علی زرداری کو منتقل ہوا اور اس سوچ کا نتیجہ 18ویں آئینی ترمیم کی صورت میں نظر آیا۔ 18ویں آئینی ترمیم صرف وہ شخص کر سکتا ہے، جو پاکستان میں قومی عوامی جمہوریت کا نظام لانا چاہتا ہو اور اس نظام کی مخالف قوتوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کرنے کی حکمت عملی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
نیو یارک، لندن اور دبئی میں بہت طویل ملاقاتوں کے دوران انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ اپنے والد محترم اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ رشتے کی وجہ سے سیاسی طور پر بہت واضح اور عوام دوست سوچ رکھتے ہیں اور اس سوچ کی انہوں نے اپنی قربانیوں سے آبیاری کی ہے۔
فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد توقع تھی کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے سیّد یوسف رضا گیلانی کو اس منصب کے لیے نامزد کیا۔ تھوڑے عرصے بعد یہ عقدہ کھلا کہ جب جنرل پرویز مشرف روتے ہوئے ایوانِ صدر سے نکلے تو یہ آصف علی زرداری کی زیرک سیاست تھی کہ انھوں نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور مشرف کو ایوان سے جانا ہی پڑا، پھر اس منصب کے لیے آصف علی زرداری نے اپنا انتخاب کیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ صدر کسی کا نمائندہ بن کر حکومت کو کمزور نہ کرے اور آئینی ترمیم کے ذریعہ صدر کے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے جا سکیں۔ آصف علی زرداری نے ایسا کیا اور پھر 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ اسے انقلاب کی صورت میں نافذ کر دیا۔
1989ء میں جب آصف علی زرداری پہلی دفعہ گرفتار ہوئے تو انہیں سی آئی اے سینٹر کراچی میں لیجایا گیا۔ سی آئی اے کے اس وقت کے ایک اعلیٰ افسر میرے دوست تھے۔ میں نے وہاں محترمہ بینظیر بھٹو اور دیگر لوگوں کی آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کرائیں اور آصف علی زرداری نے ہر ایک شخص سے یہی کہا کہ میرے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں مشکلات سے مجبور ہو کر صلح کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ پھر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ اپنی بات کی لاج رکھ رہے ہیں۔
آج کے پروپیگنڈا کا شکار لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ بہت باہمت اور بہادر ہیں۔ وہ آج بھی اپنے لیے کوئی رعایت لینے کی ہر کوشش کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ان کی بیماری میں جانتا ہوں، جب وہ دبئی میں تھے اور انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا، میں ان سے ملنے گیا تھا۔
ان کی کیفیت ایسی تھی کہ کوئی بھی شخص اس مرحلے پر اپنے نظریات سے تائب ہو سکتا تھا لیکن وہ آج بھی زیادہ بیماریوں کے باوجود اپنے عزم اور حوصلے کے ساتھ قائم ہیں۔ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ حاکم علی زرداری کا بیٹا آصف علی زرداری بھٹو کے فلسفے کا زیادہ حامی ہے۔
وہ آج کے عہد کے پاکستان کا انتہائی زیرک سیاستدان ہیں اور آج بھی ملکی سیاست میں کایا پلٹ سکتے ہیں لیکن وہ مہم جو نہیں ہیں۔ میں نے ان سے سیکھا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈا خود ان ذرائع ابلاغ کو کھا جائے گا۔ دلیل پروپیگنڈا پر ایک دفعہ پھر حاوی ہو گی۔
اگر انہیں طبی سہولتیں فراہم نہ کرنے والے کسی پروپیگنڈا کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تو انہیں بہت جلد احساس ہو جائے گا کہ فیصلہ نہ کرنے کی ان کی صلاحیت ان کے سیاسی زوال کا سبب ہے۔