دو ماہ ہونے کو آئے ہیں، وطنِ عزیز کے سیاسی اُفق پر مولانا فضل الرحمان، اُن کے مطالبات، احتجاج اور دیگر سرگرمیوں ہی کا راج ہے۔ اُن کی سیاسی منظر نامے پر اِس قدر گرفت ہے کہ سابق وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف کی تشویش ناک علالت اور علاج کے لیے بیرونِ مُلک روانگی جیسی اہم خبریں بھی متعدّد بار جے یو آئی کی سرگرمیوں کے سبب پس منظر میں چلی گئیں۔
نیز، قرائن اِس اَمر کی غمّازی کررہے ہیں کہ جب تک مولانا فضل الرحمان، پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو کوئی’’کبھی نہ بھولنے والا صدمہ‘‘ نہیں دے دیتے، اُن کی احتجاجی اور جوڑ توڑ کی سیاست جاری رہے گی۔ اِس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا وہ جملہ بھی یاد آتا ہے، جو اُنہوں نے خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد کہا تھا کہ’’ہمارے بغیر حکومت بن تو سکتی ہے، لیکن چل نہیں سکتی‘‘۔شاید وہ آزادی مارچ، دھرنے اور لاک ڈاؤن کے ذریعے اپنے اِسی قول کی تشریح کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے وزیرِ اعظم، عمران خان سے استعفا لینے کے لیے کئی مراحل پر مشتمل تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، جس کا آغاز 27 اکتوبر کو کراچی سے’’آزادی مارچ‘‘ کی صُورت ہوا۔ یہ مارچ اندرونِ سندھ سے ہوتا ہوا پنجاب پہنچا، پھر وہاں سے وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد کا رُخ کیا اور شرکاء نے وہاں پہنچ کر پشاور موڑ کے میدان میں خیمے نصب کرلیے۔
اس موقعے پر خیبر پختون خوا اور دیگر شمالی علاقوں سے آنے والے بھی دھرنے میں شریک ہوگئے، جب کہ بلوچستان کے قافلے سکھر ہی میں مارچ کا حصّہ بن گئے تھے۔ بلاشبہ شرکاء کی تعداد متاثر کُن تھی اور مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں اس سے پہلے دئیے جانے والے تمام دھرنوں سے زیادہ افراد اپنے ساتھ لانے میں کام یاب رہے، جس کا اعتراف خود حکومتی صفوں سے بھی کیا گیا۔
گو کہ اسے’’ اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ‘‘ قرار دیا گیا، مگر حقیقت یہی ہے کہ آزادی مارچ سے دھرنے تک اور پھر اُس کے بعد کے احتجاج میں بھی صرف جمعیت علمائے اسلام ہی کے کارکنان نمایاں رہے یا پھر علاقائی اور چھوٹی جماعتیں اُن کے ساتھ تھیں، مگر اُن کی بھی برائے نام اور علامتی نمایندگی تھی۔ کہنے کو تو جے یو آئی کو پاکستان مسلم لیگ(نون) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی بھی حمایت حاصل تھی، مگر یہ حمایت اخلاقی حد تک ہی محدود رہی۔
دھرنے کے دَوران صرف ایک مرتبہ بلاول بھٹّو اور ایک ہی بار میاں شہباز شریف نے کنٹینر پر آ کر خطاب کیا، جب کہ شہاز شریف کے خطاب کے حوالے سے یہ اعتراض بھی سامنے آیا کہ اُنھوں نے اپنا’’ سی وی‘‘ پیش کرنے ہی پر زیادہ فوکس رکھا۔اسفند یار ولی بھی ایک روز کے لیے آئے اور مولانا صاحب کے قافلے کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی وہاں جمع افراد سے خطاب کرکے چلے گئے۔
البتہ اُن کی پارٹی کے بعض رہنما دھرنے کے دَوران کئی بار کنٹینر پر نظر آئے۔اپوزیشن میں سے محمود خان اچکزئی پورے احتجاج کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ رہے۔تاہم، مولانا فضل الرحمٰن اور اُن کی جماعت کے دیگر رہنما ہی دھرنے کے شرکاء کو اپنے خطابات سے گرماتے رہے۔
دھرنے کے دوران وزیرِ دفاع، پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم حکومتی کمیٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل کردہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی، جس کے سربراہ اکرم خان درّانی تھے، آپس میں مذاکرات کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ اکرم درّانی کا ذکر آیا ہے، تو اُن کے حوالے سے یہ بات بھی دِل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 2002 ء میں، جب اُس وقت کے صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت بنی، تو مولانا فضل الرحمٰن اُنھیں صوبے کا وزیرِ اعلیٰ بنانے پر رضا مند تو ہوگئے تھے، لیکن اُس وقت اکرم درّانی باریش نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اوائل عُمری میں اُنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز پشتون قوم پرست طلبہ تنظیم سے کیا تھا اور وہ ترقّی پسند خیالات کے حامی تھے، پھر جب 1988ء میں جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوئے، تب بھی اُنہوں نے داڑھی نہیں رکھی۔
اس موقعے پر مولانا فضل الرحمان نے شرط رکھ دی کہ داڑھی کے بغیر شخص کو وزیرِ اعلیٰ نہیں بنایا جائے گا، تو اکرم درّانی باریش ہوگئے۔ خیر، یہ تو برسبیلِ تذکرہ بات آ گئی۔ ہم دھرنے کے دَوران مذاکرات کا ذکر کر رہے تھے، تو حکومت اور جے یو آئی کی کمیٹیوں نے ایک دوسرے کا باقاعدہ منصوبے کے تحت خُوب وقت ضائع کیا۔
اس کا اعتراف مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اِن الفاظ میں کیا کہ’’ کمیٹیوں کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں، لگی رہیں۔ ہم اپنا اصل کام کررہے ہیں۔‘‘ حکومتی کمیٹی کے سربراہ، پرویز خٹک نے اس کا جواب قومی اسمبلی میں یہ کہہ کر دیا’’ اگر مولانا صاحب حکومت سے ٹائم لینے کے لیے کمیٹیوں کے ذریعے ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں، تو ہم بھی جواباً ایسا ہی کررہے ہیں۔‘‘
البتہ، اس ماحول میں اُس وقت قدرے سنجیدگی پیدا ہوئی، جب حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ قاف کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر، چوہدری پرویز الٰہی اور بحرانی حالات میں مفاہمت کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے، چوہدری شجاعت حسین اس منظر نامے میں نمودار ہوئے۔ اس ضمن میں اسلام آباد میں موجود واقفانِ راز کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے ڈیڈ لاک کی صُورتِ حال کے پیشِ نظر خود چوہدری برادران سے کوئی راہ نکالنے کے لیے رابطہ کیا تھا اور حقیقت بھی یہی ہے۔
اسلام آباد میں دھرنے کے دَوران ایک مرحلے پر ایسا محسوس ہوا کہ مولانا صاحب دھرنے کے نتائج کے حوالے سے مایوس اور متفکّر ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے خاتون اینکر کے ایک سوال کے جواب میں یہاں تک کہہ دیا کہ’’ ہم وزیرِ اعظم کے استعفے کے مطالبے سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں، لیکن ہمیں اسی’’ سیاسی وزن‘‘ کی کوئی پیش کش تو کی جائے۔‘‘ لیکن یہ صُورتِ حال عارضی ثابت ہوئی اور جلد ہی مولانا صاحب کا اعتماد بحال ہوگیا اور لب و لہجہ تندو تیز۔
مولانا فضل الرحمان نے قومی سطح پر سیاست کا آغاز1988 ء میں کیا، جب وہ پہلی مرتبہ رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اُن کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا صاحب سیاست میں مہم جوئی پر یقین نہیں رکھتے، بلکہ اُن کی سیاست افہام و تفہیم، کچھ لو ،کچھ دو، سمجھوتوں اور صلح جوئی سے عبارت ہے۔ اُنھوں نے90 ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹّو کی حکومت کی مخالفت کی اور عورت کی حکم رانی کو حرام قرار دیا، لیکن پھر اُنہی کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کی خارجہ اُمور سے متعلق اہم کمیٹی کے چیئرمین بھی بنے۔
اُنھوں نے جنرل(ر) پرویز مشرف کی آمریّت کی ڈٹ کر مخالفت کی، اس دَوران نظر بند رہے اور اُن پر مقدمات بھی قائم ہوئے، لیکن یہ مولانا فضل الرحمان ہی تھے، جنہوں نے آئین میں 17 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، جس سے جنرل(ر) پرویز مشرف کے آمرانہ نظام کو قانونی تحفّظ اور اقتدار کو استحکام ملا، جب کہ مسلم لیگ(نون) اور پیپلزپارٹی نے17 ویں ترمیم کی مخالفت کی تھی۔ 2008 ء میں مولانا صاحب متحدہ مجلسِ عمل کے سرکردہ رہنمائوں میں شامل تھے، جب مُلک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا، تو ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتوں نے اُن انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لیکن مولانا صاحب نے ایم ایم اے کا’’بائیکاٹ‘‘ کرتے ہوئے عام انتخابات میں حصّہ لیا۔
پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی، تو اُن کے اتحادی بن کر کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سنبھال لی۔ اختصار کے ساتھ پیش کیے جانے والے اس پس منظر سے مولانا صاحب کے معاملہ فہمی پر مبنی اندازِ سیاست سے، اُن کی فہم وفراست اور سیاسی دانش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن2018 ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعد اُن کی سیاست ایک مختلف انداز میں سامنے آئی ہے۔
فاٹا کی خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت سے لے کر چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ناکامی تک مولانا صاحب ایک اعتبار سے زِچ ہوگئے، جس پر اُنہوں نے پہلی مرتبہ جارحانہ سیاست کا آغاز کیا۔ آج صُورتِ حال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سامنے جے یو آئی کے دھرنوں اور احتجاج سے نمٹنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔
اس مقصد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں، لیکن مولانا صاحب (تادمِ تحریر) جس آہنی عزم، مستقل مزاجی اور پوری توانائی سے احتجاج کر رہے ہیں اور جس طرح وہ پرُاعتماد ہیں، یہ بات حیرت انگیز ہونے کے ساتھ غیر متوقّع بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے اِس طرزِ عمل پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اور الزامات بھی عاید کیے جارہے ہیں۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ مولانا صاحب کو کہیں سے ضرور گرین سگنل ملا ہے، تو کہیں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے اُنھیں سرحد پار سے’’ آشیرباد‘‘ حاصل ہے۔ نیز،یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مُلک میں نظام کی بساط لپیٹ دی گئی، تو اس کا ’’سہرا‘‘ مولانا فضل الرحمان ہی کے سر بندھے گا اور اس خدشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اس مرتبہ جمہوری نظام ختم ہوا، تو پھر آنے والا نظام، بے رحم ہونے کی حد تک سخت ہوگا۔
دھرنا ختم، سوالات باقی
جے یو آئی نے اسلام آباد دھرنا کیوں ختم کیا؟ اِس ضمن میں طرح طرح کی باتیں، اندازے اور پیش گوئیاں سامنے آ رہی ہیں، مگر حقیقت کیا ہے؟ کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنے کے دَوران اپنے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ’’ ہم بند گلی میں داخل ہو چُکے ہیں، ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے، اب ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کے لیے ایک اِنچ کا بھی راستہ نہیں ۔ ہم وزیرِ اعظم کا استعفا لیے بغیر یہاں سے واپس نہیں جا سکتے۔‘‘ صرف مولانا فضل الرحمان ہی پر کیا موقوف، اُن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن، مفتی کفایت اللہ، حافظ حسین احمد سمیت کم و بیش تمام مرکزی قائدین اور رہنمائوں نے بھی آزادی مارچ کے حوالے سے بہت سخت اور پُرعزم بیانات دیئے تھے، جب کہ اُن کے مخالفین کا کہنا تھا کہ’’ مولانا صاحب کسی اشارے کے بغیر کبھی اِتنا بڑا قدم نہیں اُٹھا سکتے، ضرور اُن پر کسی نے ’’دستِ شفقت‘‘رکھا ہوگا۔‘‘
پھر یہ الزام بھی لگا اور اب بھی لگایا جارہا ہے کہ آزادی مارچ کے اخراجات، جس میں لاکھوں افراد کی شرکت کا دعویٰ کیا گیا، کراچی سے اسلام آباد کا سفر، کئی دنوں کے پڑائو پر اخراجات کا تخمینہ کروڑوں میں ہے، آخر یہ فنڈز کہاں سے آئے؟ اِس حوالے سے افغانستان اور بھارت کی طرف بھی اشارے کیے گئے، مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت بہرحال نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو سامنے نہیں لایا گیا۔نیز، دَبی دَبی سرگوشیوں میں یہ بھی کہا گیا کہ اتنا منظّم اہتمام اسٹیبلشمنٹ کے اشارے اور عملی تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔علاوہ ازیں، دھرنے کے کنٹینر پر محمود خان اچکزئی کی مسلسل موجودگی کو بھی افغانوں کی دھرنے میں شرکت کے حوالے سے بعض مفہوم پہنائے گئے۔ غرض جتنے مخالفین، اُتنے ہی الزام۔ مولانا صاحب نے اسلام آباد سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، تو مخالفین کے بیانات کا گویا تانتا بندھ گیا۔
بعض ٹی وی اینکرز نے مولانا صاحب اور اُن کے رفقا کے دھرنے میں دیئے گئے بیانات کو شب و روز نشرِ مکرّر کے طور پر چلایا۔ کئی تجزیہ نگاروں نے ان بیانات کی بنیاد پر جے یو آئی کے قائدین کی خُوب بَھد اُڑائی۔ لیکن کچھ سوالات بہرحال واقعی اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اوّل تو یہ کہ کیا مولانا صاحب نے وزیرِ اعظم سے استعفا لینے جیسا اِتنا بڑا دعویٰ بغیر سوچے سمجھے ہی کر دیا تھا؟ اور اگر سوچ سمجھ کر کیا تھا، تو پھر اسلام آباد سے ناکامی کا داغ سجائے واپس کیوں چلے گئے؟ ہر چند کہ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے، لیکن بعض قابلِ اعتماد ذرائع سے ملنے والی مصدّقہ معلومات کے مطابق، مولانا فضل الرحمان کی دھرنے سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن یہ ملاقات کافی دنوں بعد منظرِ عام پر آئی۔
اس ملاقات کا اعتراف مولانا صاحب کو بھی یہ کہہ کر کرنا پڑا’’ یہ ملاقات خاصی پرانی ہے، جس کا اب تذکرہ کیا جارہا ہے۔‘‘ ذرائع کے مطابق، اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی طرح مولانا فضل الرحمان کو بھی یہ شکوہ تھا کہ عمران خان اعلانیہ دعویٰ کرتے ہیں کہ’’ فوج اُن کے پیچھے کھڑی ہے۔‘‘ اگر اُن کا یہ دعویٰ درست ہے، تو فوج بھی اس کا اعتراف کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی تردید ضروری ہے، کیوں کہ عمران خان کی جانب سے دیئے جانے والے اس بیانیے سے منفی تاثر جنم لے رہا ہے، جو دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے مایوس کُن ہے۔
مذکورہ ذرائع کے مطابق، مولانا فضل الرحمان کو یقین دہانی کروائی گئی کہ فوج اس تاثر کو ختم کرے گی اور حکم ران جماعت سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے حوالے سے ایسا تاثر نہیں جائے گا۔ یہی بات پاک فوج کے ترجمان بھی قدرے مختلف انداز میں کہہ چُکے ہیں۔ اِسی تناظر میں مولانا فضل الرحمان اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے حکمتِ عملی تبدیل کر کے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔اُن کے پاس کئی کارڈز ہیں، پلان اے اور بی تو منظرِ عام پر آ چُکے۔ اب دیکھتے ہیں، آنے والے دنوں میں اُن کی پٹاری سے مزید کیا کچھ برآمد ہوتا ہے۔