عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ’’عوام کو کس نے لوٹا‘‘۔ یہ بنیادی طور پر جذبات میں لتھڑا سیاسی نعرہ ہے اور اس کا مقصد حقیقت کشائی کے بجائے سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ نعرہ ایسے مغالطوں کو بھی جنم دیتا ہے جن کی وجہ سے حقیقتِ حال انتہائی مبہم ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ پچھلے چالیس برسوں میں پاکستان میں بہت ترقی ہوئی ہے اور نئی دولت کے انبار لگ گئے ہیں تو اس کے جواب میں سادہ دل عوام کے حامی کہیں گے کہ لوگ تو اب بھی بھوکوں مر رہے ہیں۔ حقیت حال کو جاننے کے لئے ہمیں ’لوٹنا‘ کے جذباتی اظہار کو مکمل طور پر ایک طرف رکھتے ہوئے سوال اس طرح اٹھانا ہوگا کہ معاشی ترقی میں کس کو کتنا حصہ ملا اور کون عوام کا سب سے بڑا دیندا رہے۔ اس سوال کو سائنسی اور معروضی سطح پر دیکھنا ہوگا۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی حقیقت یہ ہے کہ معاشی ترقی کا ہونا اور اس میں مختلف طبقات کو ملنے والا حصہ دو مختلف طرح کے عمل ہیں۔ ملکی یا قومی معیشت کی ترقی کی موجودگی میں بھی عوام بھوکوں مر سکتے ہیں کیونکہ ضروری نہیں کہ نئی پیدا ہونے والی دولت کے ثمرات غریب شہریوں تک بھی پہنچ جائیں: وہ آبادی کے ایک حصے تک محدود و مرکوز ہو سکتے ہیں۔ پچھلے چالیس برسوں میں دنیا بھر میں یہی کچھ ہوا ہے کہ معیشتوں نے تاریخی پہلو سے تیز ترین ترقی کی ہے لیکن اس کے زیادہ تر ثمرات بالائی طبقوں تک محدود ہو گئے یا آبادی کے بہت ہی قلیل بالائی طبقات کا حصہ بن گئے۔
معاشی ترقی کوئی روحانی یا الہامی عمل نہیں ہے: یہ سیدھا سیدھا جمع تفریق کے ذریعے طے پاتا ہے۔ اس میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ چالیس سال پہلے ملک یا قوم کے پاس کتنی چیزیں اور سہولتیں تھیں اور اب کتنی ہیں۔ اگر اس طریق کار سے دیکھیں تو ان چالیس برسوں میں جتنی چیزیں افراد اور اقوام کی زندگی میں شامل ہوئی ہیں وہ پچھلے دو ہزار سال میں بھی نہیں ہوئی تھیں۔ یہ بات صرف پاکستان اور امریکہ کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام حصوں پر لاگو ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا میں تیزترین ترقی کرنے والا ایتھوپیا چالیس سال پہلے قحط اور تنگدستی کا شکار تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاشی ترقی کا کتنا پھل کس کو ملا ہے:یہ مطلقاً مختلف سوال ہے۔ اس کا تجزیہ پاکستان کے بجائے امریکہ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ وہاں ہر چیز کا ریکارڈ میسر ہے۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں دولت بالائی طبقے کے ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ یہ بھی اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ پچاس فیصد امریکیوں کی عمومی معاشی حالت بدتر ہو گئی ہے۔ اس پر جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں ان سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دولت کی اس غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ ریاست کی پالیسیاں اور قوانین ہیں۔ اگر ٹھوس انداز میں کہا جائے تو یہ ہے کہ رونلڈ ریگن کے دور سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک امیروں اور کارپوریشنوں کے ٹیکس کی شرح میں بہت زیادہ کمی ہے۔ امریکہ میں 1960sمیں امیروں کو 90فیصد تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جو 1980تک 70فیصد کی سطح پر آچکا تھا۔ ریگن نے اسے کم کرکے 50فیصد کردیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ 35فیصد تک نیچے آچکا ہے۔ کارپوریشنوں کے ٹیکس کی شرح 50 سے 21 فیصد تک نیچے آچکی ہے۔ یورپ میں بھی ویسے ہی ترقی ہوئی ہے لیکن امریکہ کی طرح امیروں کو ٹیکس چھوٹ نہیں ملی لہٰذا وہاں دولت کی تقسیم تبدیل نہیں ہوئی۔
اب آئیے پاکستان کی طرف۔ مثلاً بہت سے عقلمند لوگوں کو بھی یہ لگتا ہے کہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم میں سول و غیر سول نوکر شاہی کو ملنے والے پلاٹ، بدعنوانیاں سرِفہرست ہیں۔ ہر مظہر کو سیاسی رنگ میں دیکھنے والے جذباتی لوگ اسے سیاستدانوں کی لوٹ مار قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست بھی ہوں گی لیکن یہ بنیادی حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ بنیادی معاملہ امریکہ جیسا ہی ہے کہ یہ زیادہ تر ریاست کی ٹیکس پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔
اب تھوڑی سی جمع تفریق کرلیں تو معاملہ صاف ہو جائے گا۔ فرض کیجئے کہ پچھلے چالیس برسوں میں کل دولت میں سو ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سو ڈالر میں سے کس معاشی گرو ہ کے ہاتھوں کیا لگا؟ اعداد و شمار نہ ہونے کی بنا پر صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ سو میں سے ستر ڈالر کاروباری شعبے کے حصے میں گئے ہیں۔ بیس فیصد کے قریب افسر شاہی اور پیشہ ور کے پاس پہنچا ہے۔ باقی دس فیصد سیاستدانوں اور عوام میں تقسیم ہوا ہے۔ اب ان سب کو ایک جگہ کر لیجئے تو معلوم ہوگا کہ سو میں سے 95ڈالر کا حصہ پانے والوں میں یا تو کوئی ٹیکس دیتا ہی نہیں ہے اور یا بہت ہی واجبی رقم کی ادائیگی کرتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو عوام کا سب سے زیادہ دیندار کاروباری طبقہ ہے جس کو حکومتی اخراجات کیلئے ستر فیصد جمع کروانے چاہئیں۔ باقی طبقوں کو حتی المقدور اپنا حصہ ادا کر نا چاہئے۔