برطانیہ کے کلاسیکی ادب میں’’ شارلے برونٹی‘‘ کے ناولوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تین بہنوں میں سب سے بڑی بہن ہونے کے ناطے اس نے ایک طرف تو اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال رکھا، دوسری طرف اپنے اندر کی ناول نگار کو دریافت کرنے میں محو رہی اور انتہائی کم عمری میں یہ معرکہ سر کرلیا۔ وہ جب صرف 13 برس کی تھی، تو شاعری کرنا شروع کی اور برق رفتاری سے تخلیقی منزلیں طے کرتی ہوئی بامِ عروج کو جا پہنچی۔
شارلے برونٹی نے اپنی زندگی میں وہ حالات بھی دیکھے، جب اس نے پہلا ناول لکھا تو کوئی ناشر اسے چھاپنے کے لیے راضی نہ تھا، پھر یہ دور بھی آیا کہ برطانوی ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مورخ اس کو فراموش کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا، صرف یہی نہیں بلکہ آج تک اس کی کہانیوں کے کردار بڑی اسکرین پر بھی جلوہ گرہوتے رہتے ہیں۔
یوں تو یہ تینوں بہنیں، اس کے بھائی اور شوہر سمیت پورا خاندان ہی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھا، لیکن شارلے برونٹی کو اپنے فنی کمالات میں ید طولیٰ حاصل رہا۔ 1816 میں پیدا ہونے والی اس باکمال ناول نگار کی طبی عمر محض 38 سال تھی، لیکن تخلیقی عمر کے لحاظ سے وہ آج بھی عالمی ادب کے منظر نامے پر موجود ہے۔
اس نے خیالی دنیا جیسے موضوع سے اپنے تخلیقی سفر کی شروعات کی، لیکن دھیرے دھیرے زمینی حقائق سے قریب ہوتی چلی گئی۔ ایک مدرس کی حیثیت سے بھی اس کی زندگی غمناک رہی، جس کی عکاسی اس کی شاعری میں ملتی ہے۔ اردگرد کے ماحول اور معاشرے کے بارے میں بھی اس نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کیا، جس کی مثال ادبی دنیا میں کم کم ہی ملتی ہے۔
اسی تخلیقی رو میں’’پروفیسر‘‘ اور’’جین ائیر‘‘ جیسے ناول لکھے، جن کو پڑھ کر اس کے شاندار مشاہدے اور خیالات پر گرفت کرنے کی مہارت کا قوی احساس ہوتا ہے۔ شاعری اور کئی مختصر ناول لکھنے علاوہ اس کی تخلیقات میں جن ناولوں کو فقید المثال شہرت حاصل ہوئی، ان میں جین ایئر(1847) شیرلی(1849) ویلیٹ(1853) اور پروفیسر(1857) شامل ہیں۔ اس کا ایک ناول ادھورا بھی رہ گیا اور اس کا ایک شعری مجموعہ بھی 1846 میں اشاعت پذیر ہوا۔
اس تحریر کے لیے شارلے برونٹی کا ناول’’جین ایئر‘‘ منتخب کیا گیا ہے، جس کو ادیبہ نے ابتدائی طور پر فرضی نام سے لکھا تھا۔ ناول کی مرکزی کردار ایک ایسی عورت ہے، جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں، مگر فکشن میں تصور کی گئی اس عورت کو عالمی ادب میں بے پناہ شہرت حاصل ہے۔ اس ناول کی کہانی میں یہ عورت ایک سادہ مزاج مرد’’روچیسٹر‘‘ سے محبت کرتی اوراس کے لیے اپنا آپ نچھاور کر دیتی ہے۔
ناول میں محبت کی زبان سے ناول نگار نے رومان لکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں، صنفی امتیاز اور مذہب کی تعلیمات کی عکاسی بھی کی ہے۔ کہانی اور کردار کی سلاست اور روانی میں بڑے بڑے موضوعات کو محور بنا کر عام فہم زبان میں پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ اب بھی اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے ہے۔
’’جین ایئر‘‘ 38 ابواب اور 3 جلدوں پر مشتمل تھا، جب پہلی بار 1847 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں مرکزی کردار ہی پوری کہانی کو بیان کرتا ہے، جس کو انگریزی ادب کی اصطلاح کے مطابق’’فرسٹ پرسن نریٹیو‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول میں مقام جنوبی انگلینڈ اور دور جارج سوئم کا ہے۔ اس میں بہت سارے واقعات اور کرداروں کے تجربات شارلے برونٹی کی اپنی زندگی سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ان میں جین ایئر کے مرکزی کردار کے علاوہ مزید پانچ بڑے کردار شامل ہیں، جن میں مسز سارہ ریڈ، جون ریڈ، ایلیزا ریڈ، جارجیانا ریڈ، بیسے لی شامل ہیں۔
اس ناول میں طبقاتی اور صنفی امتیاز کو خاص موضوع کے طور پر ناول نگار نے پیش کیا، جبکہ محبت کے رنگ اور ذات کی محرومیوں کو بھی بخوبی کہانی کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ناول دنیا کے ایسے مقبول ناولوں میں شمار ہوتا ہے، جس کو ماخوذ کرکے مختلف اصناف، اشکال اور فنون میں ڈھالا گیا، جن میں تھیٹر، اوپیرا، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم کے شعبے بھی شامل ہیں۔
فلم کے شعبے میں’’جین ایئر‘‘ پر پہلی مرتبہ طبع آزمائی 1910 میں ہوئی، جب خاموش فلموں کا دور تھا۔ اس کے بعد 1914 اور 1915 میں دو دو فلمیں بنائی گئیں۔ آگے چل کر اسی دور میں مزید تین فلمیں بالترتیب 1918، 1921 اور 1926 میں مختلف ناموں سے بنائی گئیں پھر بولتی فلموں کا دور آیا اور اس ناول کی اہمیت میں کوئی کمی نہ آئی اور بین الاقوامی سینما میں اس ناول پر 1934 سے لے کر 2011 تک مزید 15فلمیں بنیں، جن میں 1940 میں معروف برطانوی فلم ڈائریکٹر’’ الفریڈ ہچکوک‘‘کی بننے والی فلم ’’ریبیکا‘‘ بھی شامل ہے، جو اسی ناول سے متاثرہ کہانی ہے، جبکہ انڈیا کی فلم’’سنگ دل‘‘ جس میں مدھوبالا نے کام کیا تھا، وہ بھی اسی ناول سے متاثرہ ہے، جبکہ تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ڈرامے ان کے علاوہ ہیں۔
2011 کو ہالی ووڈ میں اس ناول پر بنائی جانے والی فلم’’Jane Eyre‘‘ کے نام سے ہی بنائی گئی ہے۔ اس کے ہدایت کار’’کیری جوجی فوکوناگا‘‘ ہیں۔ ’’موریا بوفانی‘‘ نے اس کا اسکرین پلے لکھا ہے۔ موسیقی’’ڈاریو ماریانیلی‘‘ نے ترتیب دی، جو آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقار ہیں جبکہ کرداروں کے لباس کی ڈیزائننگ بھی اکادمی ایوارڈ یافتہ ڈیزائنر’’مچل او کونر‘‘ نے کی۔ اداکاروں میں میاوزوکوسکا، مچل فیسبینڈر، جیمی بل اور جوڈی ڈینچ شامل ہیں، جنہوں نے اپنی توانا اداکاری سے فلم کے کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھر دیے۔
دو گھنٹے کے دورانیے پر مبنی اس فلم کی پروڈکشن بی بی سی فلمز نے کی اور اسے پوری دنیا میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ اس فلم کی عکس بندی لندن سمیت برطانیہ کے مختلف حصوں میں کی گئی اور اس کہانی کی کلاسیکیت کو مجروح کیے بغیر ایک اچھی فلم بنائی گئی، جس کو ناقدین نے بھی پسند کیا اور ناظرین کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔ آسکر ایوارڈ سمیت کئی بڑے اعزازات کے لیے نامزد ہوئی اور متعدد ایوارڈز اپنے نام بھی کیے، یہ الگ بات ہے کہ آسکر جیتنے میں یہ ناکام رہی، لیکن ایک اچھی فلم کے طور پر فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے کا تجربہ رہا۔
مثال کے طور پر اس فلم کی عکس بندی کے دوران برطانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں فلم کی پوری ٹیم موجود تھی، وہ ایک ایسی جگہ تھی، جہاں موبائل فون کے سگنل بھی نہیں آرہے تھے، یہ ایک قصبہ نما جگہ تھی، یہاں فلم کی شوٹنگ مکمل ہونے تک، مقامی لوگ فلم کی پوری ٹیم کے لیے چائے بسکٹ لاتے رہے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ آج کے مغربی معاشرے میں یہ ایک منفرد بات ہے، جس سے فلم ساز بھی متاثر ہوئے۔ اسی طرح فلم میں ایک جگہ ڈنر کا سین ہے، وہ سین ہدایت کار نے خصوصی طور پر فلم کے لیے لکھوایا، ورنہ وہ منظر شارلے برونٹی کے ناول میں نہیں ہے۔
کلاسیکی ادب کو فلم کے پردے پر پیش کرنے سے نئی نسل بھی اس سے اچھی طرح روشناس ہوسکتی ہے، اس لیے پاکستان سمیت دنیا بھر کے فلم سازوں کو کلاسیکی ادب کی اس جہت پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیے۔