• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریزنے کہا تھا، ’’جب تک ہماری دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرنے والی خواتین اور لڑکیاں خوف ، تشدد اور عدم تحفظ سے آزاد نہ ہوں، ہم واقعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم منصفانہ اور مساوی دنیا میں رہتے ہیں‘‘۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ تہذیب وتمدن کی ترقی کے باوجو آ ج بھی ہماری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں خواتین اور گھروالوں کی جانب سے بدنامی اور شرمندگی کا سوچ کر خاموشی اختیار کرناایسے معاملات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ عام اصطلاحات میں یہ تشدد جسمانی، جنسی اور نفسیاتی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، جیسے کہ

٭شریک حیات پر تشدد (زدو کوب، نفسیاتی زیادتی، ازدواجی عصمت دری، کاروکاری )

٭جنسی تشدد اور ہراساں کرنا (عصمت دری ، جبری جنسی حراسانی ، ناپسندیدہ جنسی پیشرفت ، بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، جبری شادی ، گلیوں کوچوں میں ہراساں کرنا، آوازیں کسنا ، آن لائن اور سوشل میڈیا پر ہراساں کرنا)

٭انسانی اسمگلنگ (غلامی، جنسی استیصال)

بچیوں کی شادی

مزید وضاحت کیلئے 1993ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کردہ ـ’’ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا اعلامیہ‘‘، خواتین پر تشدد کو یوں بیان کرتاہے کہ صنف کی بنیاد پر کیا گیا کوئی عمل جس کا نتیجہ جسمانی، جنسی یا جنسی استیصال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہو، خواتین کو نفسیاتی نقصان یا تکلیف پہنچائے، بشمول اس طرح کی حرکتیں یا دھمکیاں جس سے خواتین کی نجی یا عوامی مقامات کی آزادی سلب ہوتی ہو یا وہ اپنی مرضی سے زندگی بسر نہ کرسکیں، تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔

ہر سال 25نومبرکو پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منا یا جاتاہے، تاہم مجموعی طور پر صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے حوالے سے ہمیں کوئی امید افز ا پیش رفت نظر نہیں آتی۔ 

خواتین کے خلاف تشدد اور دوسرے جرائم کی روک تھام کیلئے کئی قوانین موجود ہیں لیکن وہ مددگار ثابت نہیں ہوپارہے کیونکہ ان کادرست طریقے سے نفاذ یا ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا، ایسے میں حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ یہاں تک کہ خواتین کے حوالے سے جو ادارے موجود ہیں، ان کی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں یا وہ کسی کو جواب دہ نہیں کہ ان کا بجٹ کہاں خرچ ہورہا ہے۔

حکومت سندھ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2017ء سے اپریل 2018ء تک خواتین پر تشدد کے 1643واقعات سامنے آئے جبکہ ہزاروں واقعات ایسے ہیں جن کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔ صوبے میں خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے تعداد میں قلیل ہیں۔

عورتوں اور لڑکیوں پر کیے جانے والے تشدد کے نفسیاتی، جنسی اور تولیدی صحت کےحوالے سے منفی نتائج انھیں اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کو ابتدا ہی سے تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کے کالج اور یونیورسٹی جانے کے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں، جس کے بعد وہ اقتصادیات میں حصہ لینے کے بجائے گھر کی ہوکر رہ جاتی ہیں یا ضرورت پڑنے پر لیبر فورس کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ان تمام تر مسائل اور انسانیت سوز سلوک کے باجود خواتین خود کو معاشرے کا اہم فرد شمار کروانے میں مصروف عمل ہیں، وہ تمام تر غیر انسانی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی سلوک کے باجود اپنے خاندان کی پرورش کررہی ہیں اور نئی نسل کی نشوونما کیلئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہی ہیں۔

آج بھی انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو وہ رتبہ نہیں دیا جاتا، جو انہیں معتبر بناتا ہو۔ نامساعد حالات میں نرسنگ کی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کرنے والی یہ نرسیں پیشہ ورانہ زندگی میں ہر قدم پر مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ کچھ خواتین گھر چلانے کیلئے چھوٹے پیمانے پر دکانیں کھول کر اشیاء فروخت کرتی ہیں۔ 

اسی طرح مٹی کے برتن بنانے والی، پولیوکے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز، گلی کوچوں میں بیوٹی پارلرز چلانے والی اور گھر وں یا دفتروں میںکام کاج کرنے والی خواتین عموماً ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی دفاتر اور شوبز کی دنیا میں، یہاں تک کہ سیاست میں بھی خواتین عدم تحفظ کا شکارہیں۔ ایک طرف انھیں اپنے گھر والوں کی کفالت کی فکر رہتی ہے تو دوسری طرف اپنی عزت کے تحفظ کا خوف بھی انہیں لاحق رہتاہے۔

عالمی ایکشن: اورنج ورلڈ

2009ء میں یو این وومن کی جانب سے ہرمہینے کی 25تاریخ کو اورنج ڈے منایا گیا ، جس کی مہم کا نام Say No, UNiTE تھا اور اس کا مقصد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی کیمپین ’’متحد ہو جائو اور خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ کرو (UNiTE to End Violence against Women) کو سپورٹ اور اسے پُراثر بنانے کیلئےسول سوسائٹی، ایکٹیوسٹس، حکومتوں اور اقوام متحدہ کے سسٹم کو متحرک کرنا تھا ۔ اس مہم کے دوران شرکاء سے کہا گیا تھا کہ وہ یکجہتی دکھانے کیلئے اپنے لباس میں کوئی نہ کوئی حصہ اورنج کلر کا ضرور پہنیں ۔ اورنج رنگ ایک روشن تر مستقبل اور ایسی دنیا کی علامت سمجھا جاتا ہے ،جہاں خواتین اور لڑکیاں تشدد سے آزاد ہوں۔

ہمیں بحیثیت مَرد ، خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور ہراسانی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں  سدھار لانا چاہئے۔ خاص طورپر لڑکوں کو ایسی تعلیم و تربیت دینی چاہئے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کا نہ صرف احترام اور انھیں سپورٹ کریں بلکہ معاشرے میں آسانی اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے میں ان کی مدد کریں۔

تازہ ترین