• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آج کے گمبھیر کشمیر کے تناظر میں بھارت 72سال تک دنیا سے یہ منوانے میں ناکام رہا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، اس کے برعکس کشمیریوں اور پاکستان کی یہ مشترکہ صلاحیت ہے کہ وہ حل شدہ تنازع بشکل اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے بغیر نہ بھارت کو من مانی سے تنازع ختم کرنے دیں گے نہ انہوں نے اب تک عسکری زور اور جنگوں کے باوجود ختم کرنے دیا ہے۔

 8لاکھ سے زائد فوج کے سہارے سے جاری قبضہ بھارت کی صلاحیت ہے تو تنازع کے حل پر عملدرآمد تک اسے ایک اہم اور حساس عالمی مسئلے کے طور زندہ رکھنا پاکستان اور کشمیریوں کی مشترکہ سکت ہے جو مقبوضہ علاقے میں 115روز کے کرفیو اور کشمیریوں پر جاری ریاستی دہشت سے بھی ثابت ہو گئی کہ انہیں خود کشمیریوں پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔

امر واقعہ تو یہ ہے کہ 1998ء سے کشمیریوں کی خالصتاً اپنی جاری تحریک اور اس میں پاکستان کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی مدد نے پاکستان اور کشمیریوں کی مسئلے کے مطابق مطلوب حل (منظور قراردادوں) پر عملدرآمد تک اپنی مشترکہ سکت اور صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے تبھی وہ بھارت کو کسی بھی صورت کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرنے حتیٰ کے اپنے ہی آئین کو بلڈوز کرتے ہوئے کشمیر کے مقبوضہ حصے کو ہڑپ نہیں کر دے رہے۔ 

مودی حکومت کو 8ملین محبوس و مقہور کشمیریوں پر کرفیو کی خطرناک طوالت کے ساتھ ساتھ ’’سامراجی ڈیزائن‘‘ کی نقل میں مقبوضہ کشمیر کو ہتھیانے میں ناصرف مکمل ناکامی ہو گئی بلکہ اس نے جنگ کا خطرہ مول لیتے ہوئے ’’مرضی کی محدود جنگ‘‘ اور سفارتکاری، دونوں محاذوں پر منہ کی کھا کر خود ہی ثابت کر دیا کہ پاکستان اور کشمیری اسے کبھی مقبوضہ کشمیر ہڑپ نہیں کرنے دیں گے نہ ہی بھارت (پاکستان اور کشمیریوں) دونوں کو ان کی مشترکہ جدوجہد سے اور اس کے نکلتے نتائج روک سکتا ہے۔ اس پیچیدہ صورت سے تنازع کا خطرناک اسٹیٹس کو قائم ہو گیا ہے۔

ایسے میں بڑا سوال پوری عالمی برادری کے سامنے یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر عالمی برادری تسلیم شدہ نظامِ عالمی امن کے تحت مشترکہ پلیٹ فارم پر فریقین میں تنازع کا حل نکال لے اور سب فریق مع غاصب‘ منطق و دلیل کی بنیاد پر حل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن اسے عسکری طاقت پر روک دے تو کیا عالمی ادارے (اقوام متحدہ) کو بھی رکنا چاہئے؟

 اور اگر یہ رک جائے تو پھر عالمی ادارے اور اس کے اپنے فیصلوں کی کیا اہمیت و حیثیت رہ جائے گی؟ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اگلا سوال ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو پھر ایک بار 21ویں صدی میں امن عالم کے ناکام اداروں کی موجودگی میں تسلیم کرکے انسانیت بے بس ہو جائے؟‘‘

قارئین کرام! ناچیز کا مسئلہ کشمیر کی علاقائی اور عالمی امن کے لئے انتہا کی تشویشناک صورتحال کے حوالے سے یہ وہ نقطہ نظر ہے جو میں نے دو روز قبل انقرہ میں ’’لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ اور ترک تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجکل تھنکنگ‘‘ کے مشترکہ زیر اہتمام اب تک مسئلہ کشمیر پر ہونے والی سب سے بڑی عالمی کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں پیش کیا، دنیا کے مختلف خطوں کے 25ممالک سے آئے 50سے زیادہ اسکالرز، بنیادی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں، سابق سفیروں، ماہرین بین الاقوامی قانون، تھنک ٹینکس کے نمائندوں، سلامتی کے ماہرین و محققین و مصنفین نے مسئلہ کشمیر کی موجودہ خطرناک صورتحال پر ہائی کوالٹی اظہار خیال کیا۔

 اوپننگ سیشن میں آزاد کشمیر کے صدر جناب مسعود خاں مہمان خصوصی تھے اور جناب شمشاد احمد خاں اور ترک تھنک ٹینک کے چیئرمین محمد سیواس کے علاوہ انقرہ میں لارڈ نذیر، پاکستانی سفیر محمد سائرس سجاد قاضی، سینیٹر شیریں رحمٰن اور 6ترک پارلیمنٹرین اور پروفیسروں نے خطاب کیا۔ ’’بہت مدلل اور منطقی برین اسٹارمنگ میں مسئلہ کشمیر پر اتنی زیادہ اور اتنے بڑے اجتماع میں گفتگو پہلے کبھی نہیں ہوئی‘‘۔ 

یہ وہ اجتماعی ریمارکس ہیں جو آٹھ دس منجھے ہوئے سینئر سفارتکاروں اور تھنکس ٹینکس کے شامل نمائندوں نے دیے۔ (کانفرنس کی مفصل رپورٹ شائع کرنے کی ذمے داری تھنک ٹینک نے لی ہے) ایک دوسرے کی تائید و حمایت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے طور پر اپنے انداز اور نقطہ نظر سے جو مشترکہ رائے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ

....oمودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کیلئے جو فاشسٹ قدم اٹھایا ہے، اس میں وہ بری طرح ناکام تو ہوئے ہیں لیکن خطے اور عالمی امن کیلئے الارمنگ صورت پیدا کر دی ہے جس پر عالمی معاشرے کی فوری اور عملی توجہ مبذول تو ہوئی ہے لیکن اسے بڑھانا عالمی امن کی بڑی ضرورت ہے۔

....oمسئلہ کشمیر کے حل میں کسی طور کشمیریوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بالآخر عالمی امن کیلئے تشویشناک بن جانے والا یہ دیرینہ تنازع اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی حل ہوگا۔

....oمودی حکومت کے آمرانہ اقدام کے بعد پورے سائوتھ ایشین ریجن میں سماجی ترقی کے عمل کو شدید دھچکا لگا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے تسلیم شدہ حل ہی سے یہ خطہ غربت، بیماری، ماحولیاتی آلودگی اور دوسرے سماجی مسائل سے نجات پا سکے گا جس میں بڑی رکاوٹ تنازع کشمیر ہے۔

....oمقبوضہ کشمیر سے فوری کرفیو ختم کرکے اسے دنیا خصوصاً میڈیا کیلئے قابل رسائی بنایا جائے اور بھارت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ عالمی برادری کے فیصلوں کی پاسداری کرے اور کشمیریوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ فوراً بند کرے۔

تازہ ترین