کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’جرگہ ‘‘میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک بند گلی میں آگیا ہے، واحد راستہ نئے انتخابات ہیں،فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ الیکشن کمیشن کا امتحان ہے، حکومت اپنی چوری چھپانے کے لیے آئینی ادارےکو غیر فعال کرنا چاہتی ہے، اب سمجھ آئی کہ یہ الیکشن کمیشن کے 2 ارکان کیوں نہیں لانا چاہتے تھے، ہم نے الیکشن کمیشن کے قوانین کی پاسداری کی ہوئی ہے، فارن فنڈنگ نوازشریف کے اقامہ کیس سے ایک ملین گنا بڑاہے، عمران خان دوسروں کی رسیدیں مانگتے تھے اپنی رسیدیں کہاں چھپائی ہیں؟
ملک بند گلی میں آگیا ہے ،واحد راستہ ہے نئے انتخابات،جب تک حلیف ساتھ نہیں چھوڑتے عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی، بھارت کے حملے پر قرارداد میں قومی اسمبلی میں حکومت کا ساتھ دیا،حکومت گرانے کی کوشش ہوتی تو پہلے دن ہی اسمبلی میں نہ جاتے، جو تقاضہ نوازشریف کے لیے تھا وہی آصف زرداری اور دیگر قیدیوں کے لیے ہے، کیا نواز شریف کو اسپتال کا لباس پہناکر لےجانا چاہیے تھا، اسٹرائڈ دینے سے مریض میں طاقت آجاتی ہے، کیا یہ ضروری ہے کہ مریض بننے کے لیے ویل چیئر پر بیٹھا جائے، پی ٹی آئی نے ہر بات کارخ موڑنے کی بیماری پھیلا دی ہے، نواز شریف کی خواہش ہے مریم نواز دادی کی دیکھ بھال کریں۔
احسن اقبال نے کہا کہ 2018 ءء کے الیکشن کے بعد زور دار مطالبہ یہ تھا کہ اپوزیشن اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرے لیکن اس وقت دونوں جماعتیں اس حق میں نہیں تھیں کہ ملک میں کوئی بڑا بحران پیدا کیا جائے ہم نے کہا ہم اس سسٹم میں رہ کر اپنی شکایات کا ازالہ کریں گے لیکن پندرہ مہینے کے بعد ملکی صورتحال جس نہج پر آگئی ہے وہ سب کے سامنے ہے یہ دور معیشت کا ہے اگر آپ کی معیشت مضبوط ہے تو آپ کی سلامتی مضبوط ہے اگر ایسا نہیں ہے تو معاملات اس کے برعکس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا اس حکومت سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ حالات بہتر کرلیں گے دوسری طرف سفارتی صورتحال بے حد خراب ہے بھارت نے جس طرح کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
عوام میں جس قدر بے چینی بڑھ رہی ہے ممکن ہے عوام از خود آنے والے دنوں میں سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہوجائے۔ ہمارے کارکن مولانا کے مارچ میں بھرپور شریک ہوئے مولانا نے جب مارچ ختم کیا تو رہبر کمیٹی کو اعتماد میں لے کر کیا۔
مولانا نے اس دھرنے سے کیا حاصل کیا وہ بہتر جانتے ہیں ابھی اس حوالے سے ہم نے ان سے کوئی استفسار نہیں کیا لیکن آزادی مارچ کے اثرات ہمیں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
پرویز الٰہی کے مطابق مولانا یقیناً کوئی بہتر چیز ہی لے کر گئے ہیں ۔ ہمیں نہ ڈیل ملی ہے نہ ڈھیل ملی ہے۔عمران خان نے نوازشریف کی بیماری کا خود اعتراف کیا۔
عدلیہ ایک طاقتور ادارہ ہے، آئینی طور پر سب سے طاقتور عہدہ چیف ایگزیکٹو کا ہوتا ہے اگر وہ عدلیہ کے حکم پر گھر چلا جاتا ہے تو یقیناً عدلیہ طاقتور ادارہ ہے۔
نوازشریف اس وقت غیر معمولی بیماری سے گزر رہے ہیں نوازشریف کی اپنی والدہ سے محبت مثالی ہے اورہ وہ عمر رسیدہ ہیں اس وقت ضروری ہے کہ مریم نواز اپنی دادی کی دیکھ بھال کریں جس سے نوازشریف کو بہت اطمینان ہوگا کہ مریم نواز ان کے ساتھ ہیں اگر اس ماحول میں ہم انہیں سیاست میں لے آتے ہیں تو حکومت انہیں دوبارہ گرفتار کرسکتی ہے اس وقت شریف خاندان کا کوئی فرد پاکستان میں موجود نہیں ہے جس دن شہباز شریف آجائیں گے تو پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا مریم نواز اپنا کردار ادا کریں گی۔
عام تاثر یہ ہے کہ شہباز شریف کوئی بات بنا چکے ہیں اسی کے تحت نوازشریف باہر چلے گئے ہیں اور مریم نواز خاموش ہیں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس تاثر کے حساب سے تو عمران خان بھی اس کا حصہ ہیں انہوں نے اس کو انڈوز کیا کیوں کہ نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت حکومت وقت نے دی ہے۔
نوازشریف کی جونہی صحت درست ہوجائے گی وہ واپس آئیں گے شہباز شریف بھی جلد واپس آئیں گے۔ نوازشریف کی ابھی خواہش ہے کہ مریم اپنی دادی کی تیمارداری کریں۔
نوازشر یف بہادر آدمی ہیں جب وہ نیب کی حراست میں تھے اور ان کی پلیٹ لیٹس گر گئیں تھیں تب بھی وہ اسپتال اپنے پیروں سے چل کر گئے تھے انہوں نے ویل چیئر یا اسٹریچر کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور ان کی میڈیکل پوزیشن کا اقرار اس حکومت کے ڈاکٹرز نے بھی کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مریض بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ویل چیئر پر ہی بیٹھیں انہیں اسٹرائیڈ دے کر لے جایا گیا ہے جب کسی مریض کو اسٹرائڈ ز دیتے ہیں تو مریض کے اندر مصنوعی طور پر طاقت آجاتی ہے۔ نوازشریف ہمیشہ خوش لباس رہے ہیں اُن کے کپڑوں کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ وہ بیمار نہیں ہیں مناسب نہیں ہے۔ جو نوازشریف کا حق ہے وہی آصف زرداری کا اور پاکستان کے ہر قیدی کا ہے۔
آصف زرداری کے ذاتی معالج کو ان تک رسائی دینے کی ضرورت ہے اور انہیں تمام طبی سہولتیں دینی چاہیں اور یہ تمام باتیں صوبائی اختیارات میں آتی ہیں عدالت بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک وہ جماعتیں حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ان ہاؤس چینج کافی نہیں ہے نئے انتخاب کی ضرورت ہے۔ حکومت کے اپنے حلیف چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ اگر ایسے حالات رہے تو کوئی وزیراعظم بننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوگا۔
چوہدری شجاعت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے نہ دوست ہوتا ہے یہ عوام کے مینڈیٹ پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کیا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ اگر فارن فنڈنگ کیس کو آئین اور قانون کے طور پر دیکھا جائے تو یہ کیس نوازشریف کے اقامہ کیس سے کہیں زیادہ بڑا کیس ہے تیس اکاؤنٹ ایسے ہیں جو پی ٹی آئی نے ڈکلیئر نہیں کی یہ اتنی بڑی بددیانتی ہے۔
یہ امتحان الیکشن کمیشن کا ہے تحریک انصاف پانچ سال سے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اب ہمیں سمجھ آگئی کہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان پر اتفاق کیوں نہ ہونے دیا گیا ۔ اب یہ چیف الیکشن کمیشن کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے تھے اس لئے ہم نے استدعا کی ہے کہ آپ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اتنے بڑے کیس کا فیصلہ کریں۔
اکبر ایس بابر کے مطابق اس کیس پر فیصلہ دینا تین چار دن کا کام ہے چالیس سے زیادہ اسکروٹنی کمیٹی کی میٹنگ ہوچکی ہیں سارے ثبوت الیکشن کمیشن کو فراہم کیے جاچکے ہیں۔
یہ حکومت اپنی چوری چھپانے کے لئے پاکستان کے آئینی ادارے کے ساتھ کھیل رہی ہے اگلے الیکشن جب بھی ہوں الیکشن کمیشن کا کام ہے وہ مستقل اپنا کام کرتے رہے اس آئینی ادارے کو غیر موثر غیر فعال اس لئے کیا جارہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت اپنی چوری چھپانا چاہتی ہے ہم اسے یہ نہیں کرنے دیں گے۔
عمران خان کو اس چوری کا حساب دینا ہوگا جو انہوں نے بیرون ملک لوگوں سے پیسے لیے ہیں اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیے ہیں اور خدشہ یہ بھی ہے کہ پاکستان دشمن لابیز بھی ان کو فنڈ کرتی رہی ہیں اس طرح کی شکایات بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں ان سب چیزوں کی شفاف تحقیق ضروری ہے۔
ضروری ہے حکومت وقت پر نئی نامزدگیاں کرے اور اگر نامزدگی میں کوئی تاخیر ہوتی ہے تو ویکیوم کریٹ نہیں ہونی چاہیے کسی بھی ادارے میں خلاء نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ادارہ غیر فعال اور غیر موثر ہوجائے ۔