• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ میری زندگی کا ایک الَم ناک واقعہ ہے، جسے میں ساری زندگی نہیں بُھلا سکتی۔ 1979ء کی بات ہے، اُس وقت میرے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا، فیصل تقریباً چار برس کا اور چھوٹا سواسال کا۔ چھوٹے بیٹے سے پہلے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی تھی، جو ایک ماہ بعد ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اس وجہ سے ہمیں اپنا چھوٹا بیٹا بہت پیارا تھا۔ 

ہم اُسے ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے۔ میرے شوہر باربار تاکید کرتے رہتے کہ دیکھو، دروازہ کھلا نہ رہے، بیٹاچولھے کے پاس نہ جائے، کوئی قینچی، چُھری یا بلیڈ وغیرہ سامنے نہ رکھنا۔ بعض اوقات تو میں تنگ آجاتی کہ ایسی بھی کیا احتیاط۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمیں چند ہی ماہ ہوئے تھے، الگ گھر میں شفٹ ہوئے۔

ایک روز میں اپنی امّی کے گھر گئی ہوئی تھی کہ چھوٹی بہن نے چائے کی پتیلی لاکر رکھی اور میرا چھوٹا بیٹا جسے ہم پیار سے ’’نونی‘‘ کہتے تھے، اُس پر گرگیا، جس سے اس کا آدھا چہرہ جھلس گیا۔ میرے تو ہوش ہی اُڑ گئے، اللہ کا شُکر تھا کہ آنکھیں بچ گئی تھیں۔ کافی روز سخت تکلیف میں گزرے، پھر آہستہ آہستہ نونی کا چہرہ بالکل ٹھیک ہونے لگا، تو میری چھوٹی بہن نے رو رو کر دُعا کی کہ ’’اے اللہ پاک! نونی ٹھیک ہوجائے، تو میں اُسے کپڑے بناکر دوں گی۔‘‘ میں نے یوں ہی اس کا دل رکھنے کے لیے کہا کہ ’’کپڑے نہیں، تم اسے واکر دے دینا، تاکہ یہ جلدی چلنا سیکھ لے۔‘‘ تو اس نے واکر ہی دلوادی۔ جس کی وجہ سے نونی گیارہ مہینے ہی میں چلنے لگا۔ ایک روز دوپہر کو امّی اور چھوٹی بہن، میرے گھر کھانا لے کر آئیں، ہم نے اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ امّی شامی کبابوں کا قیمہ بناکر لائی تھیں اور جاتے جاتے تاکید کر گئیں کہ کباب تل لینا اور روٹیاں منگوا لینا۔ 

امّی کے جانے کے کچھ دیر بعد بڑے بیٹے فیصل نے کہا، ’’امّی مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ تو میں نے شامی کباب تل کر فیصل کو آواز دی اور کہا کہ ’’دونوں بھائی یہاں بیٹھ کر کھائو۔‘‘ چند منٹ بعد میں نے محسوس کیا کہ فیصل اکیلا ہی کھا رہا ہے، تب میں نے اسے آواز دی کہ ’’بیٹا! تم اکیلے ہی کھا رہے ہو، بھائی کو نہیں بلایا؟‘‘ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا ’’اس نے کپڑوں پر گرالیا تھا، باتھ روم میں دھونے گیا ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ سے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔ 

میں فوراً باتھ روم کی طرف بھاگی، تو یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے کہ نونی بالٹی میں اوندھا گرا ہوا تھا، اس کے ہاتھ اور سر بالٹی کے اندر تھے اور دونوں ٹانگیں بالٹی سے باہر لٹک رہی تھیں۔ آدھی بالٹی پانی کی وجہ سے اس کا سر پانی میں مکمل طور پر ڈوب چکا تھا اور پانی دماغ میں چلا گیا تھا۔ پڑوس میں میرے چچا مقیم تھے، میں نے اسے گود میں اٹھایا اور دوڑتی بھاگتی چچا کی گود میں ڈال دیا، وہ فوراً اسے لے کر باہرنکلے۔ میری چیخیں سن کر محلّے والے بھی نکل آئے۔ اسپتال جانے کے لیے کوئی سواری نہیں مل رہی تھی۔ بڑی مشکلوں سے اسپتال پہنچے، تو ڈاکٹر نے کہا ’’آپ نے دیر کردی، اسے فوت ہوئے کافی دیر ہوگئی ہے۔‘‘

ڈاکٹر کے یہ الفاظ میرے پورے وجود پر بجلی بن کر گرے، اس شدید صدمے نے میرے ہوش و حواس مختل کردیئے، مجھے کسی صورت قرار نہیں آرہا تھا۔ نونی کا معصوم، ساکت چہرہ دیکھ کر مَیں سکتے کی سی کیفیت میں آگئی اور آج بھی اس کی بھولی صورت، معصوم حرکتیں یاد آتی ہیں، تو سکتے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ وقت یاد آتا ہے، تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ اس دن کے بعد سے آج تک اپنے باتھ رومز میں ڈھکن والی بالٹیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اپنی بہو، بیٹیوں سے بھی کہتی ہوں، خدارا! اپنے باتھ رومز میں ٹب یا بالٹیوں میں پانی ہرگز نہ رہنے دیں، مبادا کسی قسم کا کوئی سانحہ نہ ہوجائے۔

(صدیقہ افتخار، فیروز پور روڈ، لاہور)

تازہ ترین