• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’لتا منگیشکر کے یہ الفاظ کبھی نہیں بھول سکتا‘، معین اختر

فون کی گھنٹی بجی، میں فون کے نزدیک تھا۔ میں نے فون اٹھایا، کسی خاتون کی مہین سی آواز آئی ’’دیکھئے کیا میں شری مہدی حسن جی سے بات کرسکتی ہوں۔‘‘میں نے پوچھا ’’آپ کون؟‘‘ تو دوسری طرف سے آواز آئی’’ میں لتا منگیشکر بول رہی ہوں‘‘۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔اپنا تعارف کرواتے ہوئے فون مہدی حسن کو دے دیا اور کہا، خان صاحب لتا جی کا فون ہے،اس وقت اُن کا منہ دیکھنے والا تھا، وہ سمجھے میں اُن سے مذاق کررہا ہوں، لیکن خیر انہوں نے فون پر ہیلو کہا۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی، کافی دیر بات چیت ہوتی رہی، وہ صرف شکریہ، مہربانی، ہم بھی آپ کے مداح ہیں، وغیرہ وغیرہ کہتے رہے، پھر پوچھا کہ آپ کو ہماری آمد کا کیسے معلوم ہوا؟ 

لتا جی کہنے لگیں!! یہاں چھٹیاں گزارنے آئی ہوں۔ میں نے آپ کے شو کا اشتہار دیکھا تھا اور اسی سے نمبر حاصل کیا، پھر لتا جی نے دوسری طرف سے کچھ کہا تو مہدی بھائی نے کہا لیجیے میں فون معین اختر کو دے رہا ہوں۔ ان کو لکھوادیں، جب میں نے فون لیا تو وہ کہنے لگیں کل شام 7 بجے میں آپ سب کا کھانے پر انتظار کروں گی۔ میں تو بہت خوش ہوگیا۔ مہدی بھائی کے ساتھ محمد حسین اور پیر بخش بھی بہت خوش تھے ۔ سب کچھ خواب سا لگ رہا تھا کہ ہم لتا جی سے ملیں گے، وہ جنہوں نے دنیا بھر میں سنگیت کے سننے والوں کے دلوں پر حکم رانی کی۔ 

ہم سب کو دوسرے دن کا بے چینی سے انتظار تھا۔ دوسرے دن ہم سب لتا جی کے بتائے ہوئے گھر پہنچ گئے، بیل بجائی، لتا جی نے خود دروازہ کھولا۔ اس دوران مہدی بھائی دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ لتا جی نے مہدی حسن کے چرن چھوئے۔

دیکھئے لتا منگیشکر اور مہدی حسن کی چند تصاویر


یہ ادب اور احترام دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میری عجیب سی کیفیت تھی۔ دنیائے موسیقی کی دو مقبول ترین ہستیاں آمنے سامنے تھیں، بلکہ یُوں کہئے کہ تاریخ کے دو باب آمنے سامنے تھے۔ برصغیر میں ہلکی پھلکی اور نیم کلاسیکی موسیقی کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی۔ ان دو ہستیوں کا ذِکر سنہرے حروف میں کیا جائے گا۔ لتا جی کہنے لگیں! میں تو اوتار کے آگے کھڑی ہوں ۔ آپ کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ 

مہدی بھائی نہایت شرافت اور سادگی سے بہت مہربانی شکریہ کہتے رہے۔ مہدی بھائی نے لتا جی کو گلدستہ پیش کیا۔اسی اثناء میں لتا جی کی سہیلی جو ایک ڈاکٹر ہیں، وہ اور لتا جی کی چھوٹی بہنیں اوشا منگیشکر اور مینا منگیشکر بھی آگئیں۔ لتا جی نے سب کا تعارف کروایا۔ پھر انہوں نے بھی مہدی حسن صاحب کو پھول پیش کیے اور ہم سب خوب صورت ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، پھر جو بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو لگتا نہ تھا کہ یہ پہلی ملاقات ہے۔

یہ دونوں باتیں کررہے تھے اور میں بہت غور سےسُن رہا تھا، جیسے کوئی چھوٹا بچہ بزرگوں کے درمیان پھنس گیا ہو اور بات تھی بھی ایسی۔ ان دو بڑے فن کاروں کے درمیان میری حیثیت ایک بچے ہی کی ہے۔ البتہ جب دونوں کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوجاتے، تو میں اپنی کوئی بات کردیتا اور سچ پوچھیے تو میں بہت اچھا بولنے کی کوشش کررہا تھا۔ تول کر بولنے کی کوشش کررہا تھا،اچانک لتا جی مجھ سے کہنے لگیں!! آپ یوسف بھائی(دلیپ کمار) کی طرح بولتے ہیں۔ 

میں نے کہا! کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی! اس بات پر لتا جی خوب ہنسیں اور میں سوچنے لگا کہ واقعی یہ بات تو میں نے بھی نوٹ کی تھی کہ جب بھی میں بولتا، تو لتا جی مجھے غور سے دیکھتیں اور میری بات بڑے دھیان سے سنتیں۔ لتا جی ہر تھوڑی دیر کے بعد خان صاحب کی تعریف کرتیں ۔ پھر لتا جی کی چھوٹی بہن مینا منگیشکر نے آکر کھانے کا اعلان کیا۔ لتا جی ہم سب کو گھر کے Back Yard میں لے گئیں، وہاں انواع و اقسام کے کھانے تھے،میں حیران تھا، جب لتا جی اپنے ہاتھ سے تکے سینک سینک کر ہم سب کو پُرزور اصرار کر کے کھلا رہی تھیں، خود تو انہوں نے شاید نہیں کھائے۔ 

پھر اچانک انہوں نے اعلان کیا کہ آج ان کی بہن آشا کے بیٹے کی سالگرہ ہے ، ہم سب نے مبارک باد دی، لیکن پھر مہدی بھائی اور میں نے ان سے خوب شکایت کی کہ آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ ہم کوئی تحفہ لے کر آتے۔ کھانے کے بعد مہدی بھائی نے لتا جی سے چائے کی فرمائش کی، تو پتہ چلا کہ اس کا انتظام پہلے سے تھا، لیکن چائے کے بجائے کافی تھی، ہم سب کھانا کھا کر اندر چلے گئے، کیوں کہ شام بھیگی جارہی تھی اور خنکی کچھ زیادہ ہوگئی تھی، پھر ہم سب کو لتا جی کی بہن نے چائے پیش کی۔ اس وقت تک کم از کم لتا جی سے میں تھوڑا بے تکلف ہوگیا تھا۔ میں نے ان کو کچھ لطیفے سنائے جس پر لتا جی بہت ہنسیں۔ لتا جی ڈرائنگ روم میں آئیں تو ان کے پاس ڈھیر ساری تصویریں تھیں، جو انہوں نے ہمارے آگے رکھ دیں۔ 

ہم ان تصویروں کو غور سے دیکھنے لگے۔ تب لتا جی نے راز کھولا اورکہنے لگیں مہدی بھائی! یہ سب تصویریں میں نے خود کھینچی ہیں اور بتانے لگیں کہ ان کو فوٹو گرافی کا کس قدر شوق ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئےہم نے انہیں شو میں شرکت کی دعوت دے دی۔ اب ہم لتا جی کا جواب سُننا چاہتے تھے۔ لیجئے لتا جی نے ہامی بھرلی اور جو جملہ کہا، وہ مجھے ابھی تک یاد ہے۔ یہ تو میرا سوبھاگیے ہے (یعنی یہ تو میری خوش قسمتی ہے) پھر تھوڑی دیر بعد ہم نے ان سے اجازت طلب کی۔ لتا جی نے روکنا چاہا، لیکن دیر کافی ہوچکی تھی۔ دیدی ہم کل آپ کا شو میں انتظار کریں گے۔ 

انہوں نے مسکرا کر وعدہ کرلیا اور پھر ہم اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے بھر میں لتا جی کی باتیں کرتا رہا اور مہدی بھائی میری باتوں پر مسکرا رہے تھے اور کبھی کبھی اپنی ترنگ میں آکے گنگنانے بھی لگتے تھے۔ بہرحال… مہدی بھائی نے لتاجی کی بہت تعریف کی کہ بہت عزت سے ملیں۔ میں نے ان سے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ مہدی بھائی آپ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ جتنی بڑی فن کارہ لتا جی ہیں، اتنے ہی بڑے فن کار آپ بھی ہیں۔ مہدی بھائی کا پھر وہی پُرانا جواب! مہربانی شکریہ۔ دوسرے روز ہمارا شو تھا۔ ہم سب وقتِ مقررہ پر ہال میں پہنچ گئے۔ میں نے پروموٹر کو کہہ کر بہترین Bouquet کا انتظام کیا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے سفیر مہدی حسن صاحب کو سُننے کے لیے موجود تھے۔ 

خیر شو شروع ہوگیا اور شو کے دوران میری آنکھیں لتا جی کو تلاش کرتی رہیں، لیکن لتا جی موجود نہیں تھیں۔ مجھے کافی مایوسی ہوئی اور میں سوچنے لگا کہ اگر وہ آجاتیں تو محفل کا رنگ دوبالا ہوجاتا۔ ہندوستانی اور پاکستانی سفیر کے ساتھ والی کرسی خالی رکھی گئی تھی کہ اگر لتا جی آئیں تو انہیں وہاں بٹھایا جائے گا۔ شو چلتا رہا اور پھر میں نے مہدی حسن صاحب کی آمد کا اعلان کیا، ہال تالیوں سے گونج اٹھا، ان کے اسٹیج پر داخل ہوتے ہی ہال میں موجود معہ ایمبیسڈر کے تمام لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے اور تالیوں کا ایک نہ رکنے والا شور تھا اور یہ نظارہ میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر خود دیکھ رہا تھا، جب ان کو گاتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہوگیا تو ہمارے پروموٹر اسٹیج کے پیچھے بھاگے بھاگے آئے، ان کا سانس پھولا ہوا تھا،کیوں کہ وہ ہال کے باہر سے تقریباً دوڑتے ہوئے آئے تھے، مجھے یہ اطلاع دینے کے لیے کہ لتا جی آگئی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ فوراً ان کو لے کر ہال میں جائیں، میں ان کی آمد کا اعلان کرتا ہوں۔ 

وہ واپس اُسی تیزی سے لوٹ گئے، میں اسٹیج کے Wing میں جا کر کھڑا ہوگیا کہ جیسے ہی مہدی بھائی اپنا گانا ختم کریں تو میں اعلان کروں۔ مہدی بھائی کا گانا تقریباً اختتام پر تھا اور میں تالی بجاتا ہوا اسٹیج پر چلا گیا اور پھر میں نے بہت ہی خوب صورت انداز میں لتا جی کی آمد کا اعلان کیا۔ حاضرین کی حیرت اور خوشی میں تقریباً چیخیں سنائی دے رہی تھیں، تالیوں کا ایک نہ رکنے والا شور تھا، اسی دوران لتا جی ہمارے پروموٹر اور کافی سارے سیکوریٹی گارڈز کے ساتھ ہال میں داخل ہوئیں۔ ان کے چہرے پر ان کی مخصوص مسکراہٹ تھی۔ 

ان کے استقبال کے لیے مہدی بھائی بھی کھڑے ہوگئے۔ مہدی بھائی نے حسب روایت اپنا گانا شروع کرنے سے پہلے لتا جی سے اجازت طلب کی، تو لتا جی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر شکریہ کہا اور مہدی بھائی نے غزل شروع کی۔ لتا جی کی موجودگی سے پاکستانیوں میں ایک خصوصی جوش پیدا ہوگیا تھا، جو فطری عمل ہے اور پھر ہر گانے کے بعد لوگوں کے داد دینے کا جوش سننے اور دیکھنے والا تھا۔ لتا جی کی موجودگی میں مہدی بھائی تقریباً کوئی آدھا گھنٹہ گائے اور پھر میں اسٹیج پر چلا گیا اور میں نے نہایت خلوص سے لتا جی کو اسٹیج پر آکر کچھ کہنے کی درخواست کی۔

لتا جی اپنی سیٹ سے مسکراتی ہوئی اٹھیں اور پھر جب تک وہ اسٹیج پر پہنچ نہیں گئیں، لوگوں نے دوبارہ لتا جی کا کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ میں نے پروموٹر کے ہاتھ سے پھولوں کا ہار لے کر مہدی بھائی کو دیا، جو انہوں نے لتا جی کو پہنادیا۔ جب لوگ خاموش ہوئے، تو لتا جی نے جو مہدی حسن صاحب کی تعریف میں الفاظ کہے، اسے تاریخ کا حصہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ مہدی حسن کی اتنی عزت دیکھ کر میں جذباتی ہوگیا اور میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے اور پھر یہ یادگار شو اختتام کو پہنچا، لیکن اس کی یادوں کے نقوش اب تک باقی ہیں۔ 

میری لتا جی سے اس کے بہت عرصے بعد مادھوری ڈکشٹ کے شو میں ملاقات ہوئی اور جب میں نے ان کو بتایا کہ میں آپ سے 75ء میں Kingston میں مہدی حسن صاحب کے ساتھ ملا تھا، تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی ، جب لتا جی نے جواب دیا کہ وہ ملاقات میں کیسے بھول سکتی ہوں!!

تازہ ترین
تازہ ترین