سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ایک دن کی مہلت دے دی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں درخواست کی سماعت ہوئی، مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کا معاملہ کل تک حل کریں ورنہ ججز نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، اپنی آئینی ذمے داری پوری کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنادیا ہے، اسسٹنٹ کمشنر بھی ایسے نہیں رکھا جاتا، جیسے آرمی چیف کا تقرر کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت مزید کہا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی تقرری کی سفارش کی، صدر مملکت نے اس کی توسیع دے دی، لگتا ہے کسی نے کچھ دیکھا ہی نہیں، سمری، ایڈوائس اور نوٹیفیکیشن جیسے بنائے گئے، لگتا ہے وزارت قانون نے بڑی محنت سے کیس خراب کیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدر مملکت اور وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ اس معاملے ایڈوائس اور نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔
اس سے قبل دوران سماعت جسٹس منصور نے کہا کہ اگر آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد ان کی تقرری ریٹائرڈ جنرل کے طور پر ہوگی؟
جواب میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ضرور 28 نومبر کو ختم ہورہی ہے، مگر آرمی چیف اس وقت تک ریٹائر نہیں ہوتا جب تک کمانڈ دوسرے جنرل کے حوالے نہ کردے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل جس آرٹیکل 255 پر انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے، آرمی چیف اس میں نہیں آتے، جس قانون میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔
دوران سماعت ججز نے استفسار کہ آرمی چیف کے نوٹیفکیشن میں 3 سال کی مدت کیسے لکھی گئی؟ اگر 3 سال کی مدت ہے تو کہاں ہے؟ یہ سوال کسی نے نہیں اٹھایا، اب اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے، اب یہ معاملہ واضح ہونا چاہیے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قواعد خاموش ہیں اور کچھ روایتیں بن گئی ہیں، مگر یہ قانون کی عدالت ہے، عدالت کے سامنے قانون ہے شخصیات نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانون کے مطابق کوئی چیز غلط ہو تو اس کو ٹھیک نہیں کہہ سکتے، اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے، ماضی میں جنرلز توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔