• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

آج دوبارہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائرڈ ہوں گے؟ تواٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کل رات کو ریٹائر ہو جائیں گے، اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر تو اس کیس کا فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کی دوبارہ جاری ہے، اس سے قبل عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی تھی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان وفاق کی جانب سے اور فروغ نسیم آرمی چیف کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔

دوبارہ سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ اور رولز کا شق وار جائزہ لیتے ہیں، تاکہ آرمی چیف کی تقرری اور توسیع کے قانون کی روح سمجھ سکیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ عدالت کیس سے متعلق سوال پوچھے، میں جواب دوں گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت 1975ء کے کنونشن کے تحت ہے، آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق عدالت کو مطمئن کروں گا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ ایک قانون کی عدالت ہے، ہمارے سامنے قانون ہے شخصیات نہیں، اگر قانون کے مطابق کوئی چیز غلط ہو تو اس کو ٹھیک نہیں کہہ سکتے، اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ میں فوج کے قانون کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، ایکٹیو سروس سے متعلق سیکشن 2 پڑھ کر سناؤں گا، جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے جنرل کا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے اس پر کہا کہ عدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا، قانون کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں کوئی لچک نہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے انہیں ہدایت کی کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر وزیرِ اعظم کا اختیار ہے، یہ بات واضح ہے، ابہام نہیں کہ وزیرِ اعظم کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں، اس سوال کا واضح جواب آئے تو مسئلہ حل ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ جو بولنا چاہتے ہیں بولیں، پھر ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، ہم آپ کے دلائل کی تعریف کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات دیتا رہوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، جو کہنا ہے کہیں، ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کے کمانڈنگ افسر ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتا سکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتا ہے جو آرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان آرمی کے رولز تقسیمِ ہند سے پہلے کے ہیں، رولز میں ترامیم کو ان کی روح کی اصل روشنی میں دیکھتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں کمیشنڈ افسر کی تعریف نہیں؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ تعریف ہے، اعلیٰ افسر کمیشنڈ افسر کہلاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں گڑبڑ ہے، ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ادارے کا ایک باقاعدہ نظام ہے، سپاہی کا افسر لانس نائیک ہو گا، اس طرح پورے ادارے کا نظام ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ کی تعریف ختم ہو گئی ہے تو آگے بڑھیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ سیکشن 16 پڑھ کر سناؤں گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیکشن 16 ملازمت سے برخاستگی سے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کسی کو بھی نوکری سے نکال سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت بھی کسی کو نوکری سے نکال سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کو محدود مگر وفاقی حکومت کو مکمل اختیارات حاصل ہیں، جونیئر اور چھوٹے افسران کو آرمی چیف نکال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمر کا بھی تعین ہے کہ کون کس عمر میں کیسے ریٹائر ہو گا، میں عدالت کو پاک آرمی رولز 1954ء بتانا چاہتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ اچھے افسر کو توسیع دے دیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ 176 میں تو صرف رولز ہیں، اچھا کام کرنے والے افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ سیکشن 176 میں قواعد بنانے کے اختیارات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت آرمی سے متعلق قواعد اور ضوابط بنا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی کا ادارہ پوری دنیا میں کمانڈ کے ذریعے چلتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ میں عدالت میں آرمی ایکٹ کے چیپٹر ون، ٹو اور تھری کو پڑھوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر اسے جان دینی پڑی تو وہ دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا‘‘ یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدتِ سروس کا ذکر ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدتِ ملازمت کا ذکر رولز میں ہے، ایکٹ میں نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے انہیں جواب دیا کہ فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں ہے، دنیا بھر میں فوج کمانڈ پر ہی چلتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایکٹ کہتا ہے کہ ریلیز یا ڈسچارج میں کوئی تاخیر نہیں کرنا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ میں آرمی رولز اینڈ ریگولیشن پڑھ کر سنائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کا تقرر وزیرِ اعظم کا اختیار ہے، یہ بات واضح ہے، ابہام نہیں کہ وزیرِ اعظم کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ لگایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا واضح جواب آئے تو مسئلہ حل ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسر کو حکومت ریٹائرڈ کر سکتی ہے، حکومت رضا کارانہ طور پر یا پھر جبری طور پر ریٹائر کر سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ بار بار مدت کا ذکر آ رہا ہے تو آپ مدت کے بارے میں بتا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف فوجی معاملات پر حکومت کا مشیر بھی ہوتا ہے، فوج کے نظم و نسق کی ذمے داری بھی آرمی چیف پر عائد ہوتی ہے، ہم فوج کے سارے ریگولیشنز دیکھ رہے ہیں تاکہ آپ کے دلائل کو سراہ سکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرمی رولز ریگولیشنز بنانے والے کی اسکیم سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کے ذہن میں کیا تھا، رولز کے مطابق جنگی حالات میں ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ تعینات کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل 3 ریٹائرڈ آرمی افسران کو سزا دی گئی، ریٹائرڈ افسران کے خلاف کارروائی انہیں سروس میں بحال کر کے کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ متعلقہ حکام بتائیں کہ کس قانون کے تحت ریٹائرڈ افسران کو بحال کر کے سزا دی گئی؟ معلوم ہونا چاہیے کہ آرٹیکل 255 کو پاک آرمی کس تناظر میں دیکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکشن 255 کو احتیاط سے پڑھیں، آپ کے کیس کا سارا دارومدار اس پر ہے، ریٹائرڈ افسران کو آرمی رولز میں سزا نہیں دی جاسکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ نارمل ریٹائرمنٹ کب ہوتی ہے؟ مدتِ ملازمت پوری ہو جائے تو کیا ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ جی سروس کی مدت پوری ہوتے ہی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نوکری سے نکالے جانے پر ڈسچارج کیا جاتا ہے یا پھر ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، ہم سروس ٹرمینیشن سے متعلق پوری اسکیم دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں نوکری سے برخاستگی، ریٹائرمنٹ اور ریٹائرمنٹ کی معطلی آتی ہے، جنگ کے دوران عارضی طور پر ریٹائرمنٹ معطل کی جا سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آرمی چیف کو کون تعینات کرتا ہے؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے انہیں جواب دیا کہ آرمی چیف کو آئین تعینات کرتا ہے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کیا ہوگی؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ آرمی چیف عہدہ ہے لیکن وہ بھی جنرل ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مدت تو 65 سال تک لکھی ہے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ وہ تو پرانی اور غیرمتعلقہ ہے، 255 اے، بی اور سی ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت آرمی چیف کو تعینات کرتی ہے، وفاقی حکومت 255 کا اطلاق کرتی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کو وفاقی حکومت نہیں بلکہ صدر تعینات کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے پاس معاملہ چیف آف دی آرمی اسٹاف سے متعلق ہے، آرمی چیف کو صدر وزیرِ اعظم کی سفارش پر تعینات کرتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے ان کے جنرل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں، چاہے وہ ساری زندگی ہی جنرل رہیں، معاملہ یہ ہے کہ کیا انہیں بطور آرمی چیف توسیع مل سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا کہ آرمی چیف کو وفاقی حکومت تعینات نہیں کر سکتی، صدر ہی تعینات کرتا ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ اگر آرمی چیف کی تعیناتی حکومت نہیں کرتی تو پھر مدتِ ملازمت میں توسیع کیسے دے سکتی ہے؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس کا آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کل ریٹائر ہو جائیں گے، جبکہ اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق کسی سابق فوجی افسر کو بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی آرٹیکل 243 کی تعریف کے مطابق انہیں بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے، اگر وفاقی حکومت آرمی چیف کی تعیناتی نہیں کرتی تو توسیع کیسے کرسکتی ہے؟ کیا مدت ختم ہو جائے تو آرمی چیف ریٹائرڈ ہوجائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی ریٹائرڈ جنرل کو بھی آرمی چیف لگا سکتے ہیں، اس میں تو یہ بھی نہیں لکھا کہ آرمی چیف آرمی سے ہی ہو گا، ایسے تو آپ کو بھی آرمی چیف بنا سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائرڈ ہوں گے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کل رات کو ریٹائر ہو جائیں گے، ان کی مدتِ ملازمت 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرمی چیف 29 نومبر کو تعینات ہوئے تھے، اس کا مطلب ہے کہ آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 نومبر کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے، پھر تو اس کیس کا فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی ہے لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، وزیرِ اعظم نے سمری اور ایڈوائز تعیناتی کی بھیجی اور نوٹیفکیشن توسیع کا ہو گیا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ یہ وزارتی معاملات ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس توقیر حسین کا کیس آیا، جسٹس توقیر سے لاء والوں نے ایسی ایسی حرکتیں کی کہ باعزت شخص کو بے توقیر کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کر سکتے، جائیں 2 دن ہیں، کچھ کریں، ساری رات اکھٹے ہوئے، کابینہ کے 2 سیشن ہوئے، ہم نے سوچا تھا کہ اتنے دماغ بیٹھے ہیں، مگر اتنے غور کے بعد یہ چیز لے کر آئے ہیں، ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق درخواست پر سماعت کل صبح تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل آج صبح جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان وفاق کی جانب سے اور فروغ نسیم آرمی چیف کے وکیل کے طور پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں، فروغ نسیم نے عدالت میں وکالت نامہ جمع کروا دیا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ترمیم آپ کر کے آگئے ہیں وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، آرمی ایکٹ رول 255 افسران سے متعلق ہے آرمی چیف سے متعلق نہیں، آرمی چیف کمانڈر ہوتا ہے افسر نہیں، جیسے افسران کی تعیناتی کا اختیار رکھنے والے صدر پر سروسز رولز کا اطلاق نہیں ہوتا ویسے آرمی چیف پر بھی نہیں ہوتا، اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع نہ آئین میں ہے نہ ہی قانون میں ہے، معاملہ دوبارہ تقرری اور توسیع کا ہے، آپ کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی اور کہا کہ ازخود نوٹس نہیں لیا ہے، جبکہ ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پر ہی سن رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے ہمیں دکھائیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کل بھی میں نے بتایا تھا کہ توسیع کے نوٹی فکیشن پر متعدد وزراء کے جواب کا انتظار تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:گیارہ ماہ میں چیف جسٹس پاکستان کا پہلا از خود نوٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، آپ نے مدت مقرر نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصورنہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کل رولز میں تبدیلی کے وقت کابینہ کو رولز پر بحث کے لیے وقت دیا گیا؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ کابینہ ارکان کو وقت دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں، کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو مان لیا۔

اٹارنی جنرل نے کابینہ کے کل کے فیصلوں کے بارے میں دستاویز عدالت میں جمع کرا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصحیح کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں خامیاں تسلیم نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کیا گیا تو تصیح کیوں کی گئی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں، توسیع سے متعلق قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف 11 ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں؟ کل جو آپ نے دستاویز دی تھی اس میں 11 ارکان نے ’یس‘ لکھا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیئے: کابینہ اجلاس، آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع پھر منظور

انہوں نے کہا کہ نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں، اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کابینہ سرکولیشن میں وقت مقرر نہیں تھا تو اس نکتے کو چھوڑ دیں، جو عدالت نے کل غلطیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کر کے ٹھیک کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ اس سے غلطی ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ان سے کہا کہ ازسرنو اور توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پر عمل کیا، تسلی سے سب کو سنیں گے کوئی جلدی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے یہ سوال اٹھایا نہیں گیا، اب اٹھا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیںگے، ماضی میں پانچ چھ جرنیل خود کو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے، تعیناتی صدر اور وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر کرتا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنے عرصے کے لیے تعینات ہوتے ہیں؟

انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے، یا ریٹائرڈ جنرل بھی؟ قواعد کو دیکھنا ضروری ہے، 243 تو مراعات اور دیگر معاملات سے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ میرے پاس ترمیمی مسودہ ابھی آیا ہے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے؟ آرٹیکل 255 ان لوگوں کے لیے ہے جو سروس سے نکالے جا چکے یا ریٹائر ہو گئے، اس آرٹیکل کے تحت ان کو واپس بلایا جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مدتِ ملازمت 3 سال کے لیے ہے، 3 سال کے بعد کیا ہوگا؟

اٹارنی جنرل نے اس پر جواب دیا کہ 3 سال تو نوٹی فکیشن میں لکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل کے نوٹی فکیشن میں 3 سال کی مدت کیسے لکھی گئی؟

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جنرل چار پانچ مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے، لیفٹیننٹ جنرل 4 سال بعد ریٹائر ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 سال ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا آرمی چیف کی تقرری کا نوٹی فکیشن ریکارڈ پر موجود ہے؟ آرمی چیف کا جو نوٹی فکیشن جاری ہوا تھا وہ بتائیں کیا کہتا ہے؟

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ اگر ریٹائرمنٹ سے 2 دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہو تو کیا وہ جاری رکھے گا، 3 سال کی مدت ہوتی ہے تو وہ کہاں ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا تعین کہیں نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ سب کو خاموشی سے سنیں گے، بہت سارے قواعد خاموش ہیں، کچھ روایتیں بن گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے: وزیرِ اعظم نے اپنے کارڈز خفیہ رکھے ہیں

انہوں نے کہا کہ ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں، آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ 262 میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر نہیں۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 243/3 کے تحت کمیشن ملتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کا پہلا نوٹی فکیشن کیا کہتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے اس پر کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے، یہ معاملہ دوبارہ تعیناتی کا ہے، 1948ء سے لے کر ابھی تک تقرریاں ایسے ہی ہوئیں ہیں، جسٹس کیانی کی تقرری بھی ایسے ہی ہوئی تھی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے تصحیح کی کہ جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی کی تقرری۔

اٹارنی جنرل نے جوا ب دیا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا کوئی تعین نہیں ہے، آرٹیکل 243 کی کوئی ایڈوائس نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو 2 مرتبہ کابینہ کو ایڈوائس بھیجی ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے، اسے کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رولز میں ریٹائرمنٹ اور ڈسچارج کا ذکر ہے، جب مدت مکمل ہو جائے پھر نارمل ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، 253 کے ایک چیپٹر میں واضح ہے کہ گھر کیسے جائیں گے یا فارغ کیسے کریں گے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل اچانک درمیان میں بول پڑے جس پر چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جواب دیا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے، اس آرٹیکل میں حالات کے تحت ریٹائرمنٹ نہ دی جا سکے تو 2 ماہ کی توسیع دی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بندہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا تو اس کی ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جا سکتا ہے، اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہو سکتی؟ مدت پوری ہونے پر محض غیر متعلقہ قاعدے پر توسیع ہو سکتی ہے، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کر رہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے، جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے، آپ کے آرمی چیف اس میں نہیں آتے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دیکھتے ہیں بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس سمجھ ہی رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کمانڈر ہوتا ہے افسر نہیں، یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے صدر مملکت کا، صدر مملکت سول سرونٹس کا تقرر کرتا ہے، تقرر کا اختیار رکھنے والے صدر مملکت پر سول سروس قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، یہی معاملہ آرمی چیف کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ تمام آفیسرز سے ڈیل کرتا ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری آئین کے تحت ہوتی ہے، سروسز رولز میں تو چیف آف آرمی اسٹاف نہیں آتا۔

واضح رہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ روز آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف کو آج سماعت کے لیے نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فریق بناتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے، عدالت نے درخواست کو 184/3 کے تحت اسے مفادِ عامہ کا معاملہ قرار دیا تھا۔

گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں فروغ نسیم نے وزراتِ قانون سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آج وہ آرمی چیف کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے ہیں۔

تازہ ترین