• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری ذاتی رائے میں بچوں کے ساتھ زیادتی، جنسی استیصال یا تشدد کے واقعات میں والدین کے نظر انداز کرنے اور کچھ حد تک اپنےرشتہ داروں یا جاننے والوں پر بلاوجہ کے اعتماد کا زیادہ عمل دخل ہوتاہے۔ والدین بالخصوص مائیں اپنے پڑوس یا رشتہ داروں کے گھر اپنے بچوں کو چھوڑ دیتی ہیں مگر بعد میں ان کے ساتھ کیا ہوتاہے، وہ نہیں جانتے۔ اس بات سے بہرحال مفر نہیں کہ صرف والدین اور سگے بہن بھائی ہی بچوں کا اچھا خیال رکھ سکتے ہیں۔ 

والدین کی کم علمی یا نادانی کا بھی لوگ فائدہ اٹھا تے ہیں۔ بعض اوقات لوگ خود بھی پیشکش کرتے ہیں کہ آپ بچے کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں، ہم اس کا خیال رکھیں گے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سارے لوگ ایک سے نہیں ہوتے لیکن زمانہ جس رفتار سے تنزلی اور سماجی زبوں حالی کا شکار ہے، اس سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ دوسروں پر اعتماد کرنے کےبجائے بحیثیت والدین اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔

بچوں سے زیادتی کئی وجوہات کی بنا پر معاشرے کو پریشان کرتی ہے۔ ایسے کسی بھی واقعے سے پورا گھرانہ اور خاندان متاثر ہوتاہے۔ اس قسم کے واقعات پر ایک این جی او سالانہ رپورٹ شائع کرتی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کتنے واقعات پیش آئے۔ 

رپورٹ کے مطابق 2017ء میں3445کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ 2018ء کے ایڈیشن میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا اشارہ دیا گیا تھا۔2018ء میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے پاکستان کا منظر نامہ کافی تشویشناک تھا۔2017ء میں بچوں کے ساتھ جنسی استیصال کے روزانہ9کیسز رپورٹ ہوئے جوکہ 2018ء میں بڑھ کر 12 کیسز تک پہنچ گئے۔ این جی او کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق، چاروں صوبوں نیز اسلام آباد ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے 2232 مقدمات درج کیے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان میں ٪56 فیصد متاثرین لڑکیاں اور ٪44 فیصد لڑکے تھے۔

ادارے کی2018ء کی رپورٹ کے مطابق، اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پنجاب میں ٪65 فیصد، سندھ میں ٪25 فیصد، خیبر پختونخوا میں ٪3فیصد ، بلوچستان میں ٪2فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں 21فیصدکیسز ہوئے۔ بچوں پر جنسی تشدد کے بہت سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ اس پر بات کرنا بے ہودگی اور باعث شرمندگی سمجھا جاتاہے۔ 

جو بچے جنسی استیصال کا شکار ہیں وہ ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں کیونکہ انہیں پوری زندگی اس صدمے سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے واقعات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے ذہنوں پر یہ واقعات اتنا گہرا اثر چھوڑتے ہیں کہ انہیں ساری زندگی ان منفی اثرات کے ساتھ جینا پڑتاہے اور اسکول ، ملازمت کی جگہ یا معاشرتی معاملات میں ان کا طرز زندگی متاثر ہوتاہے۔

اگر خدانخواستہ آپ اپنے بچے کے رویے میں کسی قسم کی تبدیلیاں دیکھیں تو فوری طور پر اس کی چھان بین اور سدباب کیلئے عملی اقدامات کریں۔ بچے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں کچھ یوں ہوسکتی ہیں:

٭■خلاف معمول جنسی نوعیت کی چیزوں میں دلچسپی لینا یا ان سے گریز کرنا

٭■نیند میں اضطراب کا مظاہر ہ کرنا یا ڈرائونے خواب دیکھنا

٭■گمراہ کن یا لبھانے والے انداز اختیار کرنا

٭■اداس رہنا یا گھر والوں اور دوستوں وغیرہ سے الگ تھلگ رہنا

٭■ ایسے جملے کہنا جو جسمانی خدوخال کے متعلق ہوں

٭■اسکول جانے سے انکا ر کرنا یاہچکچانا

٭■باتوں کو خفیہ رکھنا

٭■خلاف معمول یا بلاوجہ غصہ کرنا

اس کے علاوہ بھی دیگر علامات ہوسکتی ہیں، جس سے پتہ چل سکتاہے کہ بچہ کسی کے زیر اثر ہےیا اس پر کوئی زور زبردستی کر رہاہے۔ اپنے بچوں کو جنسی، ذہنی اور جذباتی استیصال سے بچانے کیلئے آپ کو درج ذیل اقدامات کرنے ضروری ہیں:

٭بچے جیسے ہی تین سال سے زائد عمر کو پہنچیں تو انھیں جسم کے اعضائے مخصوصہ کو خود سے دھونے کا طریقہ سکھائیں، ساتھ ہی انہیں Good Touch اور Bad Touchکے بارے میں آگاہی دیں۔

٭■بچے گھر میں اکیلے ہوں تو انہیں ہدایت کریں کہ وہ کبھی کسی اجنبی کیلئے دروازہ نہ کھولیں۔ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کو کن لوگوں کی موجودگی پر اعتبار ہے۔ آپ کو بچے کے ٹیوٹر، ملازمین اور ماسیوں کے گھر بھی معلو م ہونے چاہئیں۔

٭■ بچے کے تما م دوستوں کے گھر کا پتہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہئے اور ان کے والدین سے بھی آپ کی جان پہچا ن ہونی چاہیے۔

٭ آپ کا بچہ اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ باہر جانے یا تنہائی میں وقت گزارنے سے گھبراتا ہے یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتاہے تو اسے اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر مجبور نہ کریں بلکہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ وہ آخر ایسا کیوں کررہا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی دیکھیں کہ آپ کا بچہ کسی بڑی عمر کے فرد کےساتھ اٹیچمنٹ تو پسند نہیں کرتا۔

٭ ■ اسکول سے آنے کے بعد بچے سے اس دن کی تفصیلات پوچھیں۔

٭■ بچے خاص طور پر بچیاں بلوغت کو پہنچنے لگیں تو آپ جنسی معاملات کے بارے میں انھیں خود سے درست آگہی دیں۔ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گےتو پھر اسے یہ سب باتیں دوسروں سے بےہودہ تشبیہات کے ساتھ ملیں گی۔

٭■بچوں کو سختی سے منع کریں کہ وہ کسی سے بھی کوئی چیز لے کر کھانے کی کوشش نہ کریں۔

٭■ بچوں کواگر موبائل ، ٹیبلیٹ یا گیجٹ دیے ہوئے ہیں تو ان پر بھی کڑی نظر رکھیں کہ وہ اس کا کیسے استعمال کررہے ہیں۔

تازہ ترین