• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی کوریا نے گزشتہ دنوں اپنا جدید اور دیوہیکل اکٹ لانچر تیار کیا تھا، اس نے تین بار ایک سے زائد راکٹ لانچ کرنے کے تجربے کئے، اب اس نمائشی طور پر راکٹ لانچر سے دو راکٹ داغے جو جاپان کے قریب مشرقی سمندر میں گرے۔ اس پر شمالی کوریا کے ’’صدر کم جونگ ان ‘‘نے اعلان کیا کہ تجربہ ہماری توقع سے زیادہ کامیاب رہا، اب شمالی کوریا اس جدید دیوہیکل راکٹ لانچر سے تین درجن تک راکٹ لانچ کرسکتا ہے جو درست نشانے پر لگیں گے۔ اس زعم میں صدر کم جونگ نے اعلان کر دیا اور جاپان کو خبردار کیا کہ وہ بہت جلد طاقتور حقیقی بین براعظمی راکٹ کا تجربہ کرنے جا رہا ہے، جس پر جاپان کے وزیراعظم نے اپنے فوری بیان میں کہا کہ ایک پست اور غیر متوازن ذہن رکھنے والا شخص اس سے زیادہ نہیں کرسکتا، مگر جاپان شمالی کوریا کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔ 

دوسری طرف کم جونگ ان، نے اپنے اعلیٰ افسروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ،میں آج بہت خوش ہوں۔ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے اور شمالی کوریا کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔فوری طور پر امریکا کے صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کو پیغام ارسال کر دیا کہ وہ نئے مذاکرات اور ایجنڈے کی تیاری کرے۔ صدر ٹرمپ تین بار شمالی کوریا کے صدر کے ساتھ مذاکرات کر چکے ہیں، مگر ہر بار مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوتے رہے۔

گزشتہ ماہ سوئیڈن میں دونوں ممالک کی ورکنگ کمیٹی کے دو روزہ اجلاس بھی ناکام ہوگئے اور بےنتیجہ رہے، جس پر شمالی کوریا کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ سے کہا کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو نیا لچکدار ایجنڈا لے کر آئیں، جس میں شمالی کوریا کے بھی مفادات کا خیال رکھا گیا ہو، ورنہ ان مذاکرات کا نتیجہ بھی بے نتیجہ ہوگا۔ شمالی کوریا کے وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کی یہ پالیسی رہی ہے کہ، صدر جارج بش، صدر بل کلنٹن، صدر اوباما اور پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے تقریباً یکساں رہے ہیں کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کی تیاری بند کرے اور میزائلوں کے تجربات روک دےلیکن امریکا اپنے حریف کو کوئی رعایت دینے پر راضی نہ ہو تو مذاکرات کس طرح کامیاب ہوسکتے۔شمالی کوریا کے صدر ،کم جونگ ان نے واشنگٹن سے کہا ہے کہ پانی تیزی سے گزرتا جا رہا ہے، تاہم ہمیں اس پر خوشی ہوئی کہ امریکا اور جنوبی کوریا کی جو حال میں فوجی مشقیں ہونے والی تھیں وہ ملتوی کر دی گئی ہیں۔ یہ مثبت اقدام ہے، کیونکہ مجوزہ جنگی مشقوں میں امریکہ جوہری ہتھیار اور آبدوزیں استعمال کرنے والا تھا۔ 

شمالی کوریا کے اعلیٰ فوجی اور سفارتی افسران نے امریکاکو خبردار کر دیا ہے کہ وہ مثالی مذاکرات میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور میزائلوں کے تجربات روکنے کے خواب نہ دیکھے۔ شمالی کوریا کی اعلیٰ قیادت اس مطالبہ کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکی اس سے الگ کچھ نئی تجاویز دے سکتے ہیں تو ان پر صرف بات ہوگی مگر بات چیت لچکدار ہو، دونوں ملکوں کے ضروری مفادات کے تابع ہوں، بصورت دیگر مذاکرات کا نتیجہ وہی نکلتا رہے گا جو دو دہائیوں سےیعنی نکل رہا ہے۔

سب سے نازک مسئلہ جاپان، کوریا کا ہے۔ شمالی کوریا جاپان کو مسلسل دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں جاپان نے چین، کوریا اور دیگر علاقائی ممالک پر قبضہ کر کے بہت گل کھلائے، وہ زخم تازہ ہیں۔ کوریا کو تقسیم کیا ،اس میں امریکا کا بڑا ہاتھ تھا، پھر امریکا نے جاپان کو شکست دے کر وہاں اپنی بڑی بحری اور فضائی چھائونی بنا لی جو اس خطے کے ممالک کو براہ راست ایک تھریٹ تھی اور ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی امریکی چھائونی اور جدید امریکی بحری بیڑہ لڑاکا طیارے ہیں۔ 

ان کو جواز بنا کر شمالی کوریا کو، امریکا، جاپان اور جنوربی کوریا اور سلامتی کونسل پر شدید غم و غصہ اس لئے ہے کہ انہوں نے گزشتہ بارہ برسوں سے زائد عرصے سے مختلف اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے بینکوں کے کھاتے منجمد کر دیئے گئے، مرچنٹ نیوی کا کوئی جہاز یہاں نہ آتا ہے نہ سامان لے کرجاتا ہے۔ بچوں کی دوائیں، خوراک، اناج، گھی، تیل سب بند ہے۔ تمام اشیاء صرف پر پابندی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو خاردار تاروں سے گھرے کیمپوں میں قید رکھا گیا۔ عوام کو دانہ پانی بھی نصیب نہیں۔ بولنا چالنا بھی نصیب نہیں، انہیں کوئی حقوق نہیں ہیں مگر عوام اتنے مجبور ہیں کہ آواز نہیں اٹھا سکتے۔ پھر ستم یہ کہ جو ملک صدیوں سے ایک تھا اچانک رات ہی رات میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، گھر آدھے ادہر آدھے ادہر، یہی لوگوں کا حال ہے۔

جزیرہ نما کوریا خوشحال، پرامن اور اپنی ثقافت کی وجہ سے خطے میں سب سے نمایاں تھا۔ کوریا کی تقسیم کے بعد ایک طرف شمالی کوریا میں قائم ہونی والی سوشلسٹ حکومت کو روس نے امداد دینا شروع کی، دوسری طرف جنوبی کوریا کو امریکہ نے فوجی اڈوں کے عوض بھاری امداد فراہم کی۔ امریکا اور دیگر ملکوں کی کمپنیوں نے آزاد جنوبی کوریا میں کارخانے لگائے، وہاں کی تربیت یافتہ افرادی قوت کو استعمال کیا اور جنوب نے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 

اس طرح جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا، مگر شمالی کوریا کو روس نے امداد نہیں فراہم کی جس کی ضرورت تھی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ چین اپنے مفادات کی دوڑ میں لگ گیا شمالی کوریا ترقی کی دوڑ میں خاصا پیچھے چلا گیا اور صرف ہتھیاروں کی تیاری، اپنی عسکری قوت بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں جہاں امریکہ نے اپنے حریفوں مخالفوں کا ناطقہ بند کرنا شروع کر دیا ان ممالک نے ناچار ہتھیاروں پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح دنیا میں بے شمار خطرناک زون وجود میں آ گئے، جن میںاکثر ممالک کے پاس اعلانیہ یا غیر اعلانیہ جوہری ہتھیار موجود ہیں، اگر امریکا ابتداء ہی میں’’ کم ال سنگ‘‘ سے جو بڑے رہنما تھے کوئی معاہدہ کر لیتا تو کتنا بکھیرڑہ نہ کھڑا ہوتا۔ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان، ملک کی بدترین معاشی صورتحال کے باوجود شمالی کوریا کی مسلح افواج کو پوری طرح تیار چاق چوبند اور پوری طرح مسلح رکھتے ہیں۔ 

فوجی ضروریات میں کہا جاتا ہے کمی نہیں آئی ہے۔شمالی کوریا کی جاپان کو دھمکی کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جاپان کے پاس شمالی کوریا جتنی بڑی فوج اور دیگر ہیوی سامان نہیں ہے۔ زیادہ انحصار جاپان کا امریکی بحری بیڑے پر ہے۔ اس کے علاوہ جاپان سائنس، ٹیکنالوجی، سائبر اور اسپیس وار سمیت روبوٹیک میں بہت آگے جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا، باربار جاپان کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے یوں بھی اب وار ٹیکنالوجی بہت آگے پہنچ چکی ہے۔ حساس، مہلک اور جنگی ہتھیارجاپان سمیت بیشتر مغربی ملکوں کے پاس ہے۔ آج بھی جنگ لڑنے کے لئے تیل کی ضرورت بنیادی ہے۔ بڑی طاقتوں نے اپنے حریف ممالک کا تیل روکنے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کر لی ہے۔

شمالی کوریا ان حالات میں چین کی معاونت کا طلب گار ہوگا اور کسی حد تک کہہ سکتے ہیں، جاپان اپنی ضرورت کےلئے امریکا سے ساجھے داری کرے گا۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ سیاسی رہنماء ہوش کے ناخن لیں اور پہلے ہی سے خطروں میں گھری دنیا کو مزید خطروں سے دوچار نہ کریں۔ شمالی کوریا کا صدر، کم جونگ ان اس تمام کھیل کی اگلی بساط تیار کرنے کے لئے بحرہند، بحر اوقیانوس جنوبی، بحیرہ روم اور بحر ہند سمیت بحیرہ جنوبی چین میں بندوبست کئے جا رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔

تازہ ترین