• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا طلبہ تنظیمیں طلبہ یونینوں کو جنم دے سکتی ہیں؟

شہر قائد کے گلی کوچوں میں سانس لینے والو! اُردو، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، بلتی بولنے والو آپ کو یاد ہے نا! آج کتاب میلے میں ملنا ہے۔ ایکسپو سینٹر میں کتابیں حروف کے آنچل لیے معانی کے حجاب اوڑھے۔ دانش کی اجرک لپیٹے۔ مفہوم کی عبایا پہنے آپ کا انتظار کر رہی ہوں گی۔ آپ کو خبر تو ہوگی کہ یادوں کی بہار آرہی ہے۔

کہانیاں معصومیت کے پیراہنوں میں شیلفوں میں سجی ہیں۔ سیاستیں نقاب اٹھانے کو ہیں۔ جدید و قدیم علوم پیاس بجھانے کو بے تاب ہیں۔ پانچ دن ملاقاتیں رہیں گی۔ بچھڑنے کی رت لَد جائے گی۔ ملن گھڑیاں بن ٹھن کر اُتر رہی ہوں گی۔ باقی باتیں کسی نہ کسی اسٹال۔ کسی نہ کسی ہال میں ہوں گی۔

ششماہی امتحان کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ پنجاب پر گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ ’’منجھی پیڑھی ٹھکوا لو‘‘ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تخت لاہور سرائیکی تخت نشین کو قبول کرنے میں تامل کر رہا ہے۔ عادتیں خراب ہو گئی ہیں۔ کہنے کو تو سب ہی کہہ رہے ہیں کہ 40سال میں لگنے والے کاری زخم مندمل کرنے ہیں۔ مگر یہ گھائو بہت گہرے ہیں۔

کتنی نسلیں ان زخموں کے ساتھ پیدا ہو چکی ہیں۔ من مانیاں، بے وفائیاں، کج بخشیاں ہماری گھٹی میں داخل ہو چکی ہیں۔ آئین ہم سب کے لیے دس بارہ صفحے کی کتاب ہے۔ جب چاہے چومنا شروع کر دیں۔ جب چاہیں ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔ سمندر میں کھارا پانی کڑوا ہو چکا ہے۔

سمندر شہروں سے اونچے ہو چکے ہیں۔ ہمیں پستیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کڑوا پانی ان پستیوں میں داخل ہوکر فصلیں اور نسلیں تباہ کر رہا ہے۔نوجوان طلبہ یونینوں کی آرزو لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں:

یونہی بے وجہ نکل آئے ہیں سڑکوں پہ جواں

خوف آتا ہے کہ بھگدڑ میں نہ مارے جائیں

ہم پابندیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ آزادی کا اعلان ہونے کے باوجود ہم صبح سو کر اٹھتے ہیں تو پائوں کی بیڑیوں، ہاتھوں کی زنجیروں کو ٹشو پیپروں سے چمکاتے ہیں۔ صیاد کی خوشامد کی اتنی عادت ہوگئی ہے کہ رہائی کا تصوّر ہی خوف زدہ کر دیتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود صوبوں سے اب بھی خود مختاری کے مطالبے بلند کیے جاتے ہیں۔

صوبے داروں کو یہ تو نہ ماں باپ نے بتایا، نہ ٹیچروں نے کہ خود مختاری کے سینگ ہوتے ہیں یا نہیں۔ طلبہ یونینوں پر پابندی ختم ہوئے مدتیں ہو چکیں۔ لیکن جمہوری حکمرانوں کے ڈرے سہمے وزرائے تعلیم نے کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ یونینوں کو بحال ہی نہیں کیا۔کسی درسگاہ، سرکاری یا پرائیویٹ کو ہمت ہی نہیں ہوتی کہ اس آزاد ادارے کا فیتہ کاٹ سکے۔

ہم معلوم سے زیادہ نامعلوم سے ڈرتے ہیں۔ بڑی مہارت سے اس کا الزام بھی اپنی فوج پر عائد کر دیتے ہیں۔ فوج سویلین سے زیادہ آزاد اور جمہوری ہو چکی ہے۔ وہاں بڑے کھانوں پر کھل کر خود احتسابی اور خود تنقیدی ہوتی ہے۔

طلبہ یونینیں ہمیں فرنگیوں سے ورثے میں ملی تھیں۔ اس کے تحت ہونے والے مباحثے بھی ویسٹ منسٹر پارلیمنٹ کی طرز پر ہوتے تھے۔ جس میں موضوع سے زیادہ ان دلائل کو اہمیت تھی جو حق میں یا حمایت میں تلاش کیے جائیں۔ ان مباحثوں نے وکلا کو جنم دیا۔

جو جانتے بوجھتے بھی اپنے موکل کا دفاع کرتے تھے۔ عدالتیں شواہد کی محتاج ہو گئیں۔ طلبہ یونینوں سے سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ یہ مستقبل کی قیادت کی نرسریاں تھیں۔ طلبہ یا طالبات اپنے میرٹ پر عہدوں کے لیے منتخب ہوتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کا دخل نہیں تھا۔ پھر یہ ہوا کہ طلبہ یونینوں کے ہوتے ہوئے جماعتی وابستگیاں اظہار پانے لگیں۔ دائیں بائیں کی کشمکش۔ اور تشدد ان کے ہوتے ہوئے داخل ہو گیا تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے تو 1984ء میں پابندی لگائی۔ پھر قومی سیاسی جماعتوں، لسانی تنظیموں، فرقہ پرستوں کی ذیلی تنظیموں کو درسگاہوں میں اپنے نظریات کو بزور بازو پرچار کرنے کا موقع مل گیا۔ درسگاہوں میں طاقت کے زور پر داخلے، دھڑلے سے نقل کرنے کے رجحانات جڑ پکڑ گئے۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ یونینوں کی بحالی کے خوشگوار اعلانات کر رہے ہیں۔ نوجوان سرخ اسکارف اور پٹکے لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو ان چالیس پچاس سال میں غلبہ پانے والے محاذ آرائی کے مزاجوں، فرقہ پرست ذہنوں، لسانی عصبیتوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ جیسے صوبائی خود مختاری صوبائی تعصب میں بدل رہی ہے اس طرح طلبہ یونینیں اگر طلبہ تنظیموں کی یرغمال بن کر رہ گئیں تو یونین کی بحالی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پہلے تو حکمراں پارٹی تحریک انصاف، سندھ کی حکمراں جماعت پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم۔ جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی بتائیں کہ کیا وہ کالجوں یونیورسٹیوں میں اپنی ذیلی تنظیموں کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ کیا سیکورٹی کلیئرنس دینے والے، کیا امن و امان کے ذمہ دار اپنے ذہنوں سے چالیس سالہ زنگ اتار کر اپنے رویے بدل سکیں گے۔

درسگاہوں میں طالبعلموں کو غیر سیاسی تو نہیں لیکن غیر وابستہ تو ہونا چاہئے، فارغ التحصیل ہوکر فیصلہ کریں انہیں جو سیاسی جماعت اچھی لگتی ہے اس کے رکن بن جائیں۔ درسگاہوں میں اگر طلبہ تنظیمیں موجود رہیں گی تو طلبہ یونینیں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکیں گی۔ طلبہ یونین کو نہ سرخ ہونا چاہئے نہ سبز۔ زرد تو بالکل نہیں۔

طلبہ یونینوں کو صرف طلبہ یونین ہونا چاہئے۔ صرف ان معاملات کو سنبھالنا چاہئے جن سے طلبہ طاقتور ہوں۔ طلبہ تقسیم نہ ہوں۔ 60فیصد آبادی 15سے 30سال کے درمیان رکھنے والا ملک نوجوان ہے۔ اس کی طاقت جوان ہی ہیں۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں ان کی تراش خراش معیاری ہو جائے تو پاکستان مافیائوں کی گرفت سے آزاد ہو جائے گا۔

تازہ ترین