• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اے وادیٔ وفا تیرے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لوہا نرم ہو کر اوزار، سونا نرم ہو کر زیور، مٹی نرم ہو کر کھیت اور آٹا نرم ہو کر روٹی بنتی ہے۔ انسان دل کا نرم ہو کر ولی اور عارف بنتا ہے۔ دل کی نرمی اللہ پاک کی نعمت ہوتی ہے اور محبت میں لین دین نہیں صرف دین ہوتا ہے۔ مجھے حسین خواب دیکھنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہوں، خوابوں کو حقیقت کے روپ میں دیکھنا مجھے سکون کی وادیوں میں لے جاتا ہے۔ میں ہمیشہ اچھے خوابوں کی تعبیر اللہ سے ہی چاہتا ہوں۔ ڈرائونے خوابوں سے میری آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ یہ خواب میں اب بھی دیکھتا ہوں جہاں کہیں بھی سفر کرتا ہوں میرا بچپن میرے ساتھ ساتھ ہی دوڑتا، اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ میں کبھی ان خوابوں کو کھونا نہیں چاہتا۔ سسی پنوں کے دیس میں بھی یہ خواب میرے ساتھ ساتھ ہی سفر کرتے رہے۔ سسی سندھ کی رانی، پنوں (کیچ ) میر بلوچ قبیلے کا راجہ، سسی وفا کی دیوی تو پنوں جفا کا دیوتا۔ سسی توہم پرست راجا باپ کے نزدیک نحوست کی نشانی مگر عفت و عصمت کا پیکر، پنوں اپنے بھائیوں کی سازشوں کا شکار مگر لازوال محبت کی سچی داستان کا مرکزی کردار۔ آج سسی پنوں ایک ہی مقام پر صاحبِ مزار ہیں اور اُن کی محبت کے دشمن سازشی کرداروں کا تاریخ میں کہیں ذکر تک نہیں۔ آج وادیٔ وفا کے دیوی دیوتا بھی اپنی محبت کا صلہ ریاست کے راجائوں مہاراجائوں سے مانگتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی محبتوں کا صلہ محبتوں سے ملے۔ وہ اس احساس کا شکار ہیں کہ دنیا کی ساری سہولتیں صرف اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ جیسے بڑے شہروں کو ہی میسر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو معیاری تعلیمی ادارے اور لائبریریاں فراہم ہوں۔ انہیں اپنی صلاحیتیں دنیا کو دکھانے کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل ہو تاکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے کم سے کم وقت میں اپنی ثقافت، سیاحت اور ذہنی توانائیاں دنیا کے سامنے لا سکیں۔ اُنہیں بنجر زمینوں پر سر سبز و شاداب کھیت کھلیان آباد کرنے کے لئے سہولتیں میسر نہیں۔ وہ روزگار چاہتے ہیں مگر کوئی صنعت یا کاروبار نہیں۔ سوچ یہ آتی ہے کہ اگر صاحبانِ اختیار سڑکوں اور عمارتوں، صنعتوں کے ساتھ ساتھ وفا کی اس وادی کے ویران میدانوں میں جگہ جگہ کھیل کے میدان آباد کردیں تو یہاں کے نوجوان کھلاڑی پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں اور ان کی فکرمند ذہنی کیفیت کو مثبت صلاحیتوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور وہ تخریب کے بجائے تحریک کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے کہ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے، صرف دلاسے، طفل تسلیاں نہ دے بلکہ انہیں شفقت پدری کا عملی احساس دلائے۔ اطمینان کا پہلو یہ کہ اس حوالے سے زمین ہموار ہے۔ جذبے جوان ہیں، صرف نیت کا فقدان ہے۔ اگرچہ اس خطے اور دنیا کی خوشحالی سی پیک سے جڑی ہے اور سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے، گوادر سے کوئٹہ تک خوب صورت سڑک بہتر مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔ ضلع کیچ میں خصوصاً ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے باہمی تعاون اور ہم آہنگی سے امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت بہتر ہے مگر اس میں مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ یہاں ایرانی ڈیزل کی آزادانہ غیرقانونی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ یاد رکھئے ناجائز ذرائع آمدنی کبھی بھی ترقی کا زینہ نہیں بن سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں اور محنت کی کمائی پر ہی ناز کریں ورنہ یہ گھنائونا کاروبار ایک دن ہمارے گلے پڑ جائے گا۔ رہی بات گوادر پورٹ اور گوادر شہر میں سی پیک کے اثرات کی تو لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی نحوست کے سائے یہاں ہر طرف منڈلا رہے ہیں۔ دو بڑے ہوٹل ایک پاکستانی دوسرا چینی طرزِ تعمیر کا شاہکار تو بنے کھڑے ہیں مگر معزز مہمانوں کے منتظر، بےآباد، ویران۔ گوادر پورٹ کی ویرانی دیکھ کر ٹرین کے سفر میں بچپن کی سیم زدہ زمینیں یاد آگئیں۔ یہاں ہفتے میں صرف ایک بحری جہاز صرف ایک منٹ سولہ سکینڈ کے لئے آتا ہے اور اس پر اٹھنے والے ایک لاکھ ڈالر ہفتہ وار اخراجات کسی بھی طور پر قابلِ ستائش نہیں مگر داد دینا پڑتی ہے پورٹ ہینڈلنگ کمپنی کی کہ وہ مستقبل کی اُمید پر یہ اخراجات برداشت کئے جارہی ہے کہ پاک چین دوستی ان شاء اللہ جلد پوری دنیا پر اپنا رنگ جمائے گی۔ بس یہ چینی دوست حالات کی ستم ظریفی، حکمرانوں کی بےحسی، اندرونِ خانہ سازشوں پر مسکراتے ہی رہ جاتے ہیں۔ گوادر شہر کے مکین بھی اسی کشمکش کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عمرانی سرکار کے پندرہ ماہ میں سی پیک بہت پیچھے چلا گیا۔ وہ حکومتی ترجیحات کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواز شریف کے دور میں جس جذبے، رفتار سے سی پیک پر کام ہو رہا تھا وہ آج کہیں نظر نہیں آرہا۔ دیکھنے والی آنکھ اگر دیکھنا چاہے تو گوادر پورٹ پر عالمی سازشی قوتوں کی نحوست کے سائے مایوسی کے ساتھ ساتھ ویرانی بھی پھیلا رہے ہیں اور اس ویرانی کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وادیٔ وفا کے دیوی دیوتائوں کو اسی سر زمین پر ان کی وفائوں کا صلہ ملے۔

تازہ ترین