• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی غیرمتنازع چیف الیکشن کمشنر کا آنا معجزے سے کم نہیں ہوگا

اسلام آباد ( تبصر ہ طارق بٹ) با اثر شخصیات کی جانب سے اپنے فائدے کیلئے اپنے روایتی حریفوں کو شکست دینے کیلئے انتخابی نظام میں ہیرا پھیری کے باعث بمشکل ہی کوئی چیف الیکشن کمشنر غیرمتنازعہ رہا ہے۔ 

ایسی بہت ساری مثالیں نہیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہو کہ یکے بعد دیگرے چیف الیکشن کمشنرز نے اصل میں کسی کی حمایت میں انتخابی نتائج بدلنے کیلئے مختلف اداکاروں کا ساتھ دیا ہو بلکہ وہ تو دیگر کی جانب سے نظام کے خلا ف سازش کرنے والوں کو روکنے میں بھی بے بس اور لاچار رہے ہیں۔ 

کسی غیرمتنازع چیف الیکشن کمشنر کا آنا معجزے سے کم نہیں ہوگا گزشتہ حکومت میں پارلیمان کی جانب سے اتفاق رائے سے انتخابی ایکٹ 2017 منظور کئے جانے کے بعد انتخابی قانون میں کوئی مسئلہ نہیں۔ 

تمام انتخابی قوانین کو بھی یکجا کردیا گیا تاکہ الجھن اور ڈکٹیٹر کی جانب سے بنائے گئے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ لیکن 2018 میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کی ناکامی کی صورت میں ہونے والی رسوائی یا ناکامی نے پورے انتخابی عمل کو مشکوک اور متنازع بنادیا۔ 

آر ٹی ایس کی خرابی سے پیدا ہونے والی افراتفری کی صورتحال کا الزام چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان پر لگایا گیا۔ 

ناکام سیاسی جماعتوں کا ماننا تھا کہ انتخابات کو انہیں ہرانے کے لیے بڑے پیمانے پر انجینئر کیا گیا اور آر ٹی ایس کو جان بوجھ کر غیر فعال کیا گیا۔ سردار رضا کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان مشاورت کے نتیجے میں تقرر کیا گیا تھا۔ 

گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے باعث دونوں ان کے کردار پر شک کرنے لگے۔ تحریک انصاف سردار رضا کے حوالے سے اپنی پالیسیاں بدلتی رہی ہے۔ کبھی ان کی تعریف تو کبھی شدید تنقید کی گئی۔ 

ان کے آخری چند ماہ میں تحریک انصاف ان کے شدید خلاف ہوگئی کیونکہ اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کے خلاف 5 سال کا غیرملکی فنڈنگ کیس دائر کیا تھا۔ ان سے پہلے فخر الدین جی ابراہیم کو پانچ سال کے لیے چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا۔ تحریک انصاف نے بھی انہیں بہت اعلیٰ قرار دیا تھا۔ 

تاہم اس نے ان کے خلاف عوامی مہم چلاکر ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ انہیں آخر کار مستعفی ہونا پڑا۔ اس لحاظ سے وہ بھی متنازع ہوگئے۔ 

دیگر چیف الیکشن کمشنر کے درمیان جسٹس (ر) ارشاد حسن خان ہیں جنہوں نے کبھی بھی کوئی اعزاز حاصل نہیں کیا اور ان پر ہمیشہ ہی ان کے عہدے پر ان کے کردار کی مذمت کی گئی۔ 

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران عہدہ سنبھالنے والے جسٹس ایس اے نصرت کو کبھی بھی شفاف، آزاد اور منصفانہ طریقے سے بلدیاتی یا عام انتخابات کیلئے نہیں جانا جاتا۔ 

الیکشن کمیشن کے پہلے چار سالوں میں چار بیوروکریٹس ایف ایم خان، اختر حسین، جی معین الدین خان اور این اے فاروقی نے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ 

ایوب خان کے دور میں صدارتی انتخابات اور بنیادی جمہوری نظام کو بڑے پیمانے پر فوجی آمروں کو خوش کرنے کے لیے انجینئر کیا گیا۔ 

جسٹس مولوی مشتاق حسین کی بطور چیف الیکشن کمشنر مدت بھی کبھی غیرمتنازع نہیں پائی گئی کیونکہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

تازہ ترین