• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی سی ٹی وی کیمرے کی موجودگی میں شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لئے ہائیکورٹ میں دائر کردہ درخواست کا سماعت کے لئے منظور کیا جانا ایک احسن امر ہے۔ کسی بھی فرد کے نجی اور ذاتی افعال و اشغال یا کوتاہی سے صرفِ نظر کرنا اخلاقیات ہی نہیں، آئینی اور اسلامی تعلیمات کا بھی تقاضا ہے۔ ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن کے روبرو ایک عام شہری کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پبلک مقامات پر لگائے گئے پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل کرکے عام شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جسٹس جواد حسن نے درخواست پر ابتدائی کارروائی کے بعد اسے باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کر لیا اور وفاقی و صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا، درخواست پر آئندہ کارروائی دس دسمبر کو ہوگی۔ جدید ٹیکنالوجی کے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہاں اس کے نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نقصانات بجائے خود جدید ٹیکنالوجی کے نہیں اس کے استعمال کے ہیں، لاہور ہی کی مثال لے لیں سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت لگائے جانے والے کیمروں اور دیگر آلات سے جرائم روکنے اور مجرموں تک پہنچنے میں بہت مدد ملی، اسی طرح اگر کسی سرکاری یا نجی سی سی ٹی وی کیمرے سے بنی کوئی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس کی ذمہ داری اسے وائرل کرنے والوں پر ہے جن کے خلاف ٹھوس اور موثر کارروائی کا مطالبہ غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں کسی فرد کی نجی زندگی کے امور کے تحفظ کے لئے قوانین موجود نہیں، بات ان کے نفاذ اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ہے۔ عدلیہ کے سامنے یہ معاملہ رکھنا بہتر عمل ہے کہ عدلیہ ہی پاکستان کے ہری شہری کے ان حقوق کو یقینی بنانے کی ضامن ہے جو اسے آئین و قانون کے تحت حاصل ہیں۔

تازہ ترین