• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست جتنی بھی پُرپیچ ہو، جس قدر بھی بے اعتباری و بے اعتنائی رکھے لیکن اس کی کشش اہمیت اور سائنس کو وہاں بھی فراموش کرنا ممکن نہیں جہاں بادشاہوں کا اشارہ چلتا ہو۔ جمہوریت تو جمہوریت ہے مگر سیاست کی اور بھی ’’رشتہ داریاں‘‘ ہیں، یہ رشتہ داریاں ہی اس کا دوام ہے لیکن ارتقا سے اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جیسے سیاسی ایکو سسٹم میں جانشینی کی صداقتِ عامہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ایسے ہی ارتقا میں فطری چناؤ یا بقائے اَصلح کی حقیقت مسلمہ ہے۔

گو ابنِ خلدون نے لکھا کہ تیسری نسل کی سیاست پر گرفت کمزور ہو جاتی ہے، یہ بات کافی حد تک درست سہی تاہم جمہوری سیاست کے رنگ و بو اور پیچ و خم اپنے ہیں، اس میں دو جمع دو برابر تین یا پانچ ہوتا رہتا ہے۔ ہموار شاہراہ پر گامزن سیاسی حالات یوں پھسلتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے، سیاسی صیاد اپنے ہی دام میں آتے دیکھے تو کبھی فریب میں دلفریبی کا کمال پایا۔ جب تک کسی قوم میں اہلِ ہوس اور اہلِ اقتدار میں انیس بیس ہی کا فرق رہتا ہے اس کے سیاستدانوں کے منشور پر اعتبار ممکن نہیں، نہ کوئی سیاسی فارمولا ہی قابلِ فہم ہو سکتا ہے۔ ’’ہوا‘‘ کے دوش پر پڑا کوئی اصول کارگر ہو بھی کیسے؟ ایسی حالت پر کسی ابن خلدون یا افلاطون کی تھیوری کو پورا کیسے لائیں؟ بس ایسے ہی ہم مدینہ مزاجوں کی ’’زندگی کٹ رہی ہے کوفے میں‘‘!

حالیہ حکومتی عمائدین نے قبل از اقتدار اور عنانِ اقتدار تھامنے کے بعد جو امید کی شمعیں عوامی آنکھوں میں فروزاں کیں وہ تو تقریباً سراب ہوئیں۔ بحث تو خیر ہر لمحہ ممکن ہے لیکن تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا چاہئے۔ بات یہ بھی نہیں ان سے قبل نون لیگ یا پیپلز پارٹی یا قاف لیگ کے دور میں کوئی شہد کی نہریں بہتی تھیں لیکن بے شمار کوتاہیوں کے باوجود حالات بہتر تھے، ڈیجیٹل جھوٹ شاید کم تھا۔ جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ایسے ہی کمپیوٹرائزڈ جھوٹ کو کمپیوٹر ہی پکڑتا ہے اور یہی آنکھ مچولی سوشل سے کنونشنل میڈیا تک جاری ہے۔ پس ایسے دائروں کے سفر میں الجھے قدموں کو تو منزل چومنے سے رہی۔

ہماری سیاسیات بلکہ سماجیات میں بھی ایسا نہیں کہ جو ہم پر اعتبار کرے ہم اس سے جھوٹ بولتے ہیں اور جو ہم سے جھوٹ بولے ہم اس پر اعتبار کرتے ہیں؟ اور اسی کو ہم سیاست سمجھ بیٹھے، اسی پر پہرہ دیتے اور کہتے ہیں کہ ہم اسمارٹ اور ڈیجیٹل ہیں۔ جب تک اپنی روایات اور ثقافت کی بنیاد پر جدتوں کو تعمیر نہیں بخشتے تب تک ہوا میں گھر بنانے والے ہی رہیں گے۔ تعمیر کی عادت کو جلا بخشنے کیلئے ضروری ہے فریب کے دشت سے نکلا جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کیا سچ کی بنیاد رکھ پائیں گے؟

نانا، ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی فہم و فراست اور کرشمہ سازی! ماں، بینظیر بھٹو کا وژن اور جدوجہد! باپ آصف علی زرداری کی مصلحت پسندی! ان تینوں شخصیات کی خوبیوں کا آمیزہ گر بلاول میں آ جاتا ہے تو ہوا کے رخ اور مقتدر کی قوت کی مدد کا حصول بھی ممکن ہے اور یہی ’’تلخیاں‘‘ درکار ہیں کامیابی کیلئے۔ کیونکہ معاملہ نیچرل سلیکشن کا ہے۔ قیادت تو وہی ہوتی ہے جو پہلی نسلوں کی خوبیوں کو تھام لے اور خامیوں سے سیکھے۔ جوہری توانائی بھٹو کی فراہم کردہ سہولت کاری نہیں سپرد کردہ ذمہ داری ہے۔ دی ہوئی لائن بینظیر کا تحفہ ہی نہیں کانٹوں کا سفر اور جمہوریت کا ثمر بھی ہے۔ زرداری کی دی ہوئی تربیت خوشنما استقامت ہی نہیں دلخراش سچ بھی ہے۔ نانا، ماں اور باپ کی رودادِ قفس کی دل سوزی کے بھی بامعنی ہیں۔ بلاول یہ مدنظر رکھ پائیں تو سیاسی موسم کی سازگاری میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ بقائے اصلح کا تو یہی اصول ہے!

آج والوں کے پاس 2013سے قبل تھا ہی کیا اور اب بچا کیا ہے؟ آج کے حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ آنے والے کل میں جانشینی کا ہے سو یہ ’’پیوند کاری‘‘ کے محتاج ہیں پیپلزپارٹی کا یہ مسئلہ نہیں۔ آنے والے وقتوں میں پھر سیاسی منظر نامہ پیپلزپارٹی اور نون لیگی لگتا ہے، خیر تیسرے ’’کرامتی‘‘ تو ہوں گے ہی مگر لیبل شاید کچھ اور ہو وجہ یہ کہ دلِ ناداں کو اس حکومت میں درد کی دوا کے بجائے سزا ملی ہے، آگے اس کے اثرات بہرحال ہوں گے۔

یہ تاسیسی اراکین ہوں یا تاسیسی اجتماع اپنی جگہ تربیت گاہیں ہوتی ہیں۔ پھر جو حسنِ سلوک زرداری صاحب سے موجودہ حکمرانوں اور سابق ’’نیاز مندوں‘‘ نے روا رکھا ہے اس نصاب کا سمجھنا بلاول کیلئے آکسفورڈ سے کم تعلیم و تحقیق نہیں۔ کچھ جید جمہور پسندوں اور مکتب کا درجہ رکھنے والے مخلصین و قائدین کا اس برے وقت میں بھی تر و تازہ و توانا ساتھ بلاول کیلئے انمول اثاثہ ثابت ہوگا۔ گویا پیپلز پارٹی کے گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں ابھی بہرحال ہے۔ تاریخ گواہ ہے، پِک اینڈ چوز بنیادوں پر ایوب خان و ضیاء الحق و پرویز مشرف احتساب جینوئن سیاستدانوں کا راستہ نہیں روک سکے بلکہ ’’کچھ‘‘ تو ان کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوانوں تک پہنچے اور ان کے زوال کے آغاز ہی پر چھوڑ بھی گئے۔ آمر سوچتے ہی رہ گئے کہ ہم تو استعمال کرنے نکلے تھے مگر ہو گئے۔ پس ایسا ہی ہوگا وقت بدلنے کے سنگ یہاں رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پھر زرداری حکومت کو جیسے میڈیا نے پورا نیست و نابود کیا اور نون لیگ کو آدھا۔ کم و بیش یہی کچھ آگے بھی ہوگا۔ ہاں جو صرف اردو کو کمزوری یا طاقت سمجھتے ہیں انہیں یاد ہوگا۔ بھٹو اور مجترمہ کو بھی اردو میں مہارت بعد ہی میں ہوئی۔ اوپر سے بلاول کا بونس یہ کہ حکمرانوں کی غلطیوں اور قفس میں بیمار زرداری سے زیادتیوں کا سلسلہ بلاول سیاست کو روشن کرکے دم لے گا، گر بلاول ڈٹا رہا!

تازہ ترین