• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلحہٰ یاسر، لاہور

این جی اووالی وکیل بی بی سخت غصّے سے باقاعدہ کانپ رہی تھیں۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ تہذیب و شائستگی کے معیارات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیتیں۔’’ آپ کو ذرا خیال نہیں آیا … ذرا فکر نہیں ہوئی ، اپنی نورِ نظر، اپنی لختِ جگر کی زندگی سے متعلق سب سے بڑا فیصلہ کرتےہوئے ، خیال آتا بھی تو کیسے ؟ 

عورت کواس مردانہ معاشرے میں کوئی انسان سمجھے تو… ارے ایسے تو عزیز، رشتے دار بھی نہیں کرتے اور آپ تو اس کے سگے باپ ہیں ۔ ‘‘وکیل بی بی جو ش جذبات میں خود ہی سوال اور خود ہی جواب ، خود ہی استغاثہ اور خود ہی فیصلہ صادر فرما رہی تھیں ۔ 

پطرس ایک تو اپنی بٹیا رانی کے ساتھ چِین میں شادی کے نام پر ہونے والیـ’’ خواری‘‘ کی وجہ سے گہرے صدمے میں تھا ، اوپر سے وکیل بی بی کی بارعب شخصیت اور اُن کے دیارِ غیر سے سے اپنی بیٹی کی باحفاظت بازیابی کے احسان تلے دب کر اس کی آواز حلق ہی میں کہیں پھنس کر رہ گئی تھی۔’’ غضب خدا کا ، نہ کوئی پوچھ گچھ، نہ کوئی چھان پھٹک … مَیں پوچھتی ہوں آخرآپ نے کیا سوچ کر اپنی بیٹی کا یو ں سات سمندر پار،اتنی آسانی سے رشتہ کر دیا تھا؟‘‘ وکیل صاحبہ کا پارہ نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ تاہم اس لمحے پانی کا ایک ٹھنڈا گلاس آناََ فاناََ پی کر انہوں نے کچھ توقف کیا ۔چیمبر میں رُوم ٹیمپریچر گرتے ہی پطرس کی ہمت بندھی۔ 

اس نے گھگھیائے سے لہجے میں، بہت نپے تلے انداز میں عرض کیا ـ’’ بی بی جی! ہم غریب لوگ ہیں ،چاہے چین میں شادی کریں یا پاکستان میں ۔ہمارا جوا ہی ہوتا ہے ۔ آخر کو ہم لڑکی والے ہی ہیں، کوئی لڑکے والے تھوڑی ہی ہیں۔‘‘ پطرس کی آواز اور اس کے چہرے میں چھپے کرب کے آگے وکیل بی بی لاجواب ہو گئیں۔

تازہ ترین