ڈاکٹر ہما میر
’’حمید کاشمیری کے ناول ’’رگِ گل‘‘ پر سیریل بنا رہا ہوں، ہما،تم اس میں سموسے والے کی بیٹی رابی کا کردار کرو گی یا اس کی امیر کبیر سہیلی کا؟ شام کے چار بج رہے تھے، جب پی ٹی وی سے محمد اقبال لطیف نے ہمیں فون کر کے ڈرامے میں کام کرنے کے لیے پوچھا۔ ہم یہ ناول اخبارجہاں میں پڑھ چکے تھے، لہٰذا جانتے تھے کہ رابی کا کردار سب سے اہم اور مرکزی ہے۔ اس لیے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں فوری کہہ دیا کہ جی میں رابی والا کردار کروں گی۔ اقبال لطیف نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ آج ساڑھے پانچ بجے ریہرسل ہے، ٹی وی اسٹیشن پہنچ جانا۔
پاداش کی ریکارڈنگ کے پہلے دن جب ہم صبح ساڑھے دس بجے ٹی وی پہنچے تو دیکھا کہ سیٹ پہ لائٹنگ ہو رہی تھی۔ اسکرپٹ کے مطابق ’’رابی‘‘ جھونپڑی میں رہتی تھی، مگر سیٹ ایک معمولی کواٹر کا لگا تھا، جس کا پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ پروڈیوسر نے وہ سیٹ تڑوا دیا اور کہا کہ جھونپڑی اور کواٹر میں فرق ہوتا ہے، کہانی کے مطابق جھونپڑی کا سیٹ لگے گا، چناں چہ سیٹ ڈیزائنر نے نیا سیٹ لگوایا پھر اس پر چیف کیمرا مین نے لائٹنگ کروائی اور یُوں پاداش کا پہلا سین شام5بجے ریکارڈ ہوا۔ اسٹوڈیو ڈی میں لگنے والا سیٹ دو دن لگا رہا پھر دوسرا سیٹ لگ گیا۔ 13اقساط کی سیریل میں کئی سیٹ لگے اور ٹوٹے، کچھ سیٹ تو ٹوٹ کے دوبارہ لگے۔
سیریل میں ایسا ہی ہوتا تھا، ہفتہ وار ریکارڈنگ ہو تو مسلسل ایک ہی سیٹ ہر وقت نہیں لگا رہ سکتا۔ جب ہمارا سین ہو تو ہم اپنے سیٹ پر ورنہ اسی اسٹوڈیو میں دوسرے سیٹ پر۔ سیٹ کی اہمیت کیا ہے، یہ ہم آج اتنے برس گزر جانے کے بعد سوچتے ہیں۔ آج کل چوں کہ زیادہ تر ریکارڈنگ پُرانےگھروں اور بنگلوں میں یا آئوٹ ڈور ہوتی ہے، اس لیے سیٹ لگنے کا رواج ختم ہو رہا ہے۔
سیٹ ڈیزائن کرنا بہت مہارت کا کام ہے، یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ چیف ڈیزائنر ہو یا اس کی ٹیم ہر ایک اس شعبہ میں اپنی مثال آپ ہوا کرتا تھا۔ ڈراما ریکارڈ ہونے سے قبل رائٹر اور ڈائریکٹر پروڈیوسر کے ساتھ چیف ڈیزائنر کی بھی میٹنگ ہوتی تھی، جو پورے ڈرامے کی روح کو سمجھ کر اس کے مطابق سیٹ ڈیزائن کیا کرتا تھا۔ اب ’’پاداش‘‘ ڈرامے میں جھونپڑی کے سیٹ کا تذکرہ ہم نے کیا تو یکایک ’’گریز‘‘ بھی ہمارے ذہن میں آ گیا۔
اس کے ہدایت کار کاظم پاشا تھے۔ ’’گریز‘‘ گداگروں پر ڈراما تھا، جیسے ’’کشکول‘‘ ڈراما تھا۔ گریز کی کچھ ریکارڈنگ تو سچ مچ کی جھگیوں میں آئوٹ ڈور ہوئی، مگر پورا سیریل ان ڈور تھا، یعنی جھگی کا سیٹ اسٹوڈیو میں لگایا گیا۔ یہ ہنر سیٹ ڈیزائنر کا ہی ہوتا تھا کہ آئوٹ ڈور اور ان ڈور کو ہم آہنگ کرے یعنی ایسا سیٹ لگائے جس پر حقیقت کا گمان ہو۔ اب پاکستان ٹیلی ویژن کی پُوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے! کیا کیا شان دار سیٹ لگے۔
ہم تاریخی ڈراموں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہیں گے۔ آخری چٹان، شاہین، بابر، تعبیر کیسے مقبول ڈرامے تھے، ان کے سیٹ، فن کاروں کے ملبوسات، مکالمات سب کچھ کتنا سحرانگیز تھا۔ جب ہم حیدر امام رضوی کا سیریل ’’با ادب باملاحظہ ہوشیار‘‘ کر رہے تھے، تو ’’محل‘‘ کا سیٹ لگتا تھا۔ اس سیریل کے رائٹر اطہر شاہ خان جیدی تھے، جب کہ فن کاروں میں قاسم جلالی، شہزاد رضا، ساجدہ سید، یعقوب ذکریا، فہمید احمد خان، ملک انوکھا، حنیف راجا، ہمایوں بن راتھر، سبحانی بایونس، امبر نینسی اور دیگر کئی فن کار شامل تھے۔ محل کے مختلف گوشے، دربار، بادشاہ کی خواب گاہ، راہداری، تالاب، باغ، سبھی کا سیٹ لگتا تھا۔ کبھی کبھی پوری ٹیم آئوٹ ڈور ریکارڈنگ کے لیے گلشن معمار جاتی تھی ،مگر ایسا دو تین ہفتوں میں ایک آدھ بار ہوتا تھا۔
آؤٹ ڈور ریکارڈنگ میں سورج کے زوال کے وقت ریکارڈنگ نہیں ہو سکتی تھی، کیوں کہ سورج عین سر پر ہونے کے باعث چہرے پر لائٹ نہیں پڑتی، صبح سویرے پوری ٹیم کاسٹیوم پہن کے قافلے کی شکل میں پی ٹی وی سے روانہ ہوتی۔ بروکیڈ کے زرق برق لباس، قدیم وضع کے زیورات اور پرانے زمانے کے شاہی گیٹ اپ ہم سب کو کیسے لگتے ہوں گے، یہ سوچ کر لبوں پہ یکدم مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ صبح9بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک ریکارڈنگ ہوتی پھر لنچ بریک اور ایک بجے کے بعد دوبارہ ریکارڈنگ ہوتی۔ شام میں سورج ڈھلنے لگتا تو واپسی کا سفر شروع ہو جاتا۔
پہلے آئوٹ ڈور ریکارڈنگ کا مطلب آئوٹ ڈور ہی ہوتا تھا، یعنی اسٹوڈیو سے باہر مثلاً سڑک، باغ، بازار، دُکان، ریستوران وغیرہ اور ایک مرکزی سین باہر ہوتا، جب کہ اس سے مماثل سیٹ بنا کے باقی سین اسٹوڈیو کے اندر ہی ہوتے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ بڑے بڑے لوگ یہاں کام کرتے رہے۔ مرزا حسن بیگ، آفریدی صاحب، عاتکہ بشیر، تنویر صاحب، انور جعفری، حفیظ صاحب، جمیل صاحب، شہباز چوہدری، دردانہ محمود اور بہت سے نام ہیں۔
مرزا محسن بیگ اب ڈیزائن میں نہیں، پی ٹی وی سے ریٹائر ہو کر وہ فری لانس کام کرتے رہے، اب چوں کہ ڈراموں میں ان کا نام نظر نہیں آتا، تو ہم نے فون کر کے ان کی اہلیہ سنجیدہ محسن سے ان کا حال احوال پوچھا۔ سنجیدہ کا تعلق بھی پی ٹی وی سے رہا ہے اور وہ ہماری دیرینہ ساتھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محسن اب لکھنے لکھانے کی طرف مائل ہو گئے ہیں، آج کل ایک اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں، چون کہ اب ڈیزائن کا کام تو اتنا رہا نہیں۔ ہم سوچنے لگے مرزا محسن بیگ تو اسکرپٹ رائٹنگ کر رہے ہیں، باقی سب کیا کر رہے ہوں گے؟ اتفاق سے آرٹس کونسل میں دردانہ محمود سے ملاقات ہو گئی۔ دردانہ کو دنیا عرشی گل کے نام سے جانتی ہے۔
عرشی گل ان کا ریڈیو کا نام ہے، جو انہوں نے اس وقت اپنایا، جب وہ بطور اسٹاف آرٹسٹ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھیں۔ ہم نے دردانہ سے پوچھا کہ کیا حال ہیں، کیا مصروفیات ہیں تو علم ہوا کہ وہ عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں اور خوش ہیں۔ ہم نے ان کے سیٹ ڈیزائن والے شعبے کو کریدا تو دردانہ ایک سرد آہ بھر کے رہ گئیں۔ کہنے لگیں۔ ’’کیا دور تھا، وہ، 70کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن میں ڈیزائن کے شعبے میں کام کرنا شروع کیا، اس وقت پی ٹی وی کی وین صبح5بجے ان کو گھر سےPickکرنے آتی تھی، اتنی صبح اس لیے کہ اس زمانے میں9بجے اسٹوڈیو ریڈی کر کے دینا ہوتا تھا۔ اندھیرے گاڑی آجاتی اور جب تک ہم گھر سے باہر نکلتے ڈرائیور صاحب مسلسل ہارن بجائے جاتے۔
ہماری والدہ غصہ کرتی تھیں کہ علی الصباح ہارن کا اتنا شور پڑوسیوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو گا۔‘‘ دردانہ سے ہم نے پوچھا کہ صبح9بجے کون سی ریکارڈنگ ہوتی ہے، ہم تو صبح دس یا ساڑھے دس بجے ہی جاتے تھے اور جب تک میک اپ ہو12بج جاتے اور لنچ بریک جو ڈیڑھ بجے ہوتا تھا۔ اس سے پہلے اگر ایک سین بھی ریکارڈ ہو جائے، تو سب واہ واہ کرتے تھے۔ دردانہ نے بتایا کہ نہیں جناب اس زمانے میں9بجے سیٹ پورا تیار ہوتا تھا اور ٹائم سے ریکارڈنگ شروع ہوتی تھی۔ ویسے اتنا عرصہ ہم نے شوبزنس میں گزارا ہے، ہم نے صرف لاہور مرکز کے راشد ڈار کو دیکھا ہے، جو لنچ سے پہلے کم از کم دو سین تو آرام سے ریکارڈ کر لیتے تھے۔
اداکارہ زیبا بختیار کا کہنا تھا کہ پہلے ڈرامے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوتے تھے، جس میں بڑی محنت سے سیٹ لگائے جاتے تھے اب ڈرامے چوں کہ گھروں میں ریکارڈ ہو رہے ہیں، لہٰذا سیٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسٹوڈیو میں سیٹ ایسا لگتا تھا، جس سے Depth of Fieldملتی تھی، اب گھر میں تو یہ ملنے سے رہی، اس لئے کبھی کبھی Depth of Fieldدکھانا ہو تو گھر میں بھی ایک آدھ فلیٹ لگ جاتا ہے۔ قارئین کو ہم بتائیں کہ فلیٹ سے مراد اپارٹمنٹ نہیں بلکہ فلیٹ سیٹ ڈیزائن والے اس لمبے سے لکڑی یا گتے کو کہتے ہیں جو بطور دیوار سیٹ پر لگتا ہے۔ اسی فلیٹ پہ کھڑکی، دروازہ، بلب کا ہولڈر اور سوئچ سب لگتا ہے۔ زیبا بختیار سے ہم نے پوچھا کہ فلمیں بھی تو گھروں میں بن رہی ہیں، کیا فلموں میں سیٹ لگ رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایورنیو، شباب اسٹوڈیو، شاہ نور اسٹوڈیو، باری اسٹوڈیو اور ایسٹرن اسٹوڈیو سمیت بہت سے اسٹوڈیوز ہیں، جہاں شوٹنگ ہو رہی ہے، مگر وہ ڈراموں کی نہیں بلکہ شوز کی ہو رہی ہے۔ کورنگی میں بھی بہت سے اسٹوڈیوز ہیں، جہاں مارننگ شوز اور گیم شوز ہو رہے ہیں اور وہاں سیٹ بھی لگ رہے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ اب سیٹ لگ تو رہے ہیں، مگر ڈراموں کے نہیں۔ زیبا بختیار ہمیں ڈراموں کی موجودہ صورت حال اور نئے فن کاروں کے مصنوعی نخروں سے بھی نالاں نظر آئیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ اخلاقیات کی بہت کمی ہے۔ کوئی سین ریکارڈ کرنا ہو تو ساتھی فن کار سامنے بیٹھ کر موبائل میں لگے رہتے ہیں، جس سے مکالمات ادا کرنے اور تاثرات دینے میں مشکل ہوتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اب ڈراما سنگل کیمرے پہ شوٹ ہوتا ہے۔ پہلے آپ کے شاٹ پھر دوسرے کے، پھر تیسرے کے، ایک ماسٹر شاٹ اور بس۔ یہ فلم کی تیکنیک ہے، جس پہ ڈراما بن رہا ہے۔ پی ٹی وی پہ اسٹوڈیو میں چار پانچ کیمرے ہوتے تھے، پینل پہ بیٹھا پروڈیوسر سوئچنگ کرتا تھا۔ اس سے سبھی کے تاثرات ریکارڈ ہوتے تھے۔ زیبا نے چوں کہ ڈرامے اور فلموں میں کام بھی کیا ہے اور انہیں پروڈیوس بھی کیا ہے، اس لیے وہ بہتر موازنہ کر سکتی ہیں۔
اب اگر کسی حویلی، مغل دور کا طرز تعمیر یا جھگیاں ڈرامے میں دکھانا ہو تو کہاں ریکارڈنگ ہو گی؟ بہت سے کام یاب ڈراموں کا ری میک بنتا ہے، اب اگر تاریخی ڈراموں کا ری میک بننا ہو تو کس گھر میں دربار، راہداری، میدان جنگ، گھوڑے، اصطبل، خیمے وغیرہ یہ سب کہاں، کیسے ہو گا؟ کاسٹیوم اور میک اپ کے ماہرین تو یہ فریضہ بخوبی سرانجام دیں گے کہ پرانے دور کی تصویر جھلکتی نظر آئے، لیکن اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ کچھ میک اپ ایسا بھی ہو گا، جس کے لیے وہی پی ٹی وی کے پرانے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی پڑیں گی۔