• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت اپنی آئینی میعاد کے تقریباً ڈیڑھ سال مکمل کر چکی ہے تاہم ملک کی سیاسی فضا اب تک انتخابات کے دنوں کی سی گرما گرمی، افراتفری اور ہلچل ہی نہیں بلکہ دونوں جانب سے جنگجویانہ بیان بازیوں، دھمکیوں اور الزام و دِشنام سے عبارت ہے۔ دنیا کے مستحکم جمہوری ملکوں میں اس کے برعکس انتخابات کے فوراً بعد حالات معمول پر آجاتے ہیں اور نئی حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں مشاورت، قانون سازی اور پالیسیوں کی تشکیل کے ذریعے کاروبار مملکت چلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں مگر انتخابات کے ڈیڑھ برس بعد بھی کیفیت یہ ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے میں مجوزہ ترمیم کیلئے حکومت سے رابطے ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف اس کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت حملے کر رہی ہے، لندن میں ہمارے قائد کے گھر کو نشانہ بنایا گیا تو یہاں بھی کسی کا گھر نہیں بچے گا، ہم یہ چہرے نہیں بھولیں گے، منصوبہ بندی کرنے والوں کا پتا ہے، ان کا آخری حد تک پیچھا کریں گے، ہمیں جنگ کا پیغام دیا جا رہا ہے تو ہم بھی تیار ہیں لیکن اس سے پورا سسٹم لپیٹا جائے گا‘‘۔ خواجہ آصف کے اس اظہار خیال کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ مواصلات مراد سعید نے کہا ’’دھمکیوں کا کلچر نہیں چلے گا، قرضوں کے پیسوں سے بیرونِ ملک جائیدادیں بنائی گئیں، شہباز شریف کو ٹی ٹیز اسکینڈل کا جواب دینا ہوگا، تمام پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا اور ٹی ٹیز کے ذریعے پاکستان منگوایا گیا، ماڈل ٹاؤن میں یہ جواریوں کی طرح پیسہ گنتے تھے کہ آج کتنی کمائی ہوئی‘‘۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز نسٹ یونیورسٹی میں پنجاب حکومت کی طرف سے بدعنوان افراد کی تلاش کیلئے بنائی گئی ایپلی کیشن کا افتتاح کرتے ہوئے نوجوانوں کو کرپٹ لوگوں کا ہر جگہ تعاقب کرنے کی ہدایت کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کا پیسہ چوری ہونے سے قومی خزانے ہی کا نہیں پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کے اس موقف سے کوئی بھی معقول شخص اختلاف نہیں کر سکتا کہ ملک کو کرپشن سے پاک ہونا چاہئے لیکن موجودہ دور ہی نہیں اس سے پہلے کے ادوار میں بھی احتساب بالعموم صرف حکومت ِوقت کے سیاسی مخالفین ہی کا کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے یہ عملاً اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جانے والے ہتھیار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے ڈیڑھ برسوں میں بھی یہی صورت نظر آتی ہے۔ متعدد بڑے اپوزیشن رہنما مہینوں سے زیر حراست و تفتیش ہیں لیکن جرم ثابت ہونے کا مرحلہ آنے کا نام نہیں لیتا۔ چیئرمین نیب بھی اپنے خطبات میں اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف واضح اشارے دیتے ہیں جبکہ وابستگانِ اقتدار کا احتساب شروع کرنے کی محض یقین دہانیاں ہی کرائی جاتی ہیں۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے بی آر ٹی اور مالم جبہ کیس شروع کرنے میں عدالتی حکم امتناعی کو حائل بتایا جبکہ اطلاعات کے مطابق مالم جبہ کیلئے کسی عدالت نے حکم امتناعی جاری نہیں کیا ہے۔ احتساب کے عمل میں اگر واقعی مکمل غیرجانبداری نظر آئے، حکمرانوں اور ان کے مخالفین سب کیلئے احتساب کا پیمانہ یکساں ہو، یہ کام حکومت کے بجائے مکمل طور پر احتسابی اداروں اور عدالتوں پر چھوڑ دیا جائے اور ان معاملات میں سیاسی بیان بازیوں سے اجتناب کیا جائے تو سیاسی ڈیڈ لاک کو بہت کم وقت میں توڑا اور سیاسی فضا کو موجودہ ہیجانی کیفیت سے پاک کرکے پارلیمنٹ کے اصل جمہوری کردار بحال کیا جا سکتا ہے جبکہ بصورت دیگر قومی سطح پر تقسیم و تفریق اور انتشار و افتراق کے مزید بڑھنے کو روکا نہیں جا سکے گا لیکن یہ فی الحقیقت قومی خودکشی کا راستہ ہوگا۔

تازہ ترین